Namaz Ke Doran Pasina Saaf Karna Kaisa ?

 

نماز کے دوران پسینہ صاف کرنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9065

تاریخ اجراء: 21 صفر المظفر 1446ھ /27 اگست   2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ اگر دورانِ نماز پیشانی یا چہرے پر پسینہ آئے ،تو اپنے بازو کو منہ پر پھیر کر پسینہ  صاف کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر دورانِ نماز پسینہ آئے اور پسینے کے سبب نماز میں توجہ مضطرب ہونا شروع ہو جائے اور خشوع وخضوع میں فرق پڑے، تو ایسی صورت میں ہاتھ یا بازو کے ذریعے ایک رکن میں دو مرتبہ پسینہ صاف کرنے کی اجازت ہے، لیکن اگر معمولی سا پسینہ آیا ہے کہ جس کے سبب کوئی پریشانی نہیں ہو رہی، تو اب پسینہ صاف کرنے کے لیے ایک مرتبہ بھی  ہاتھ اٹھانا مکروہِ تنزیہی اور  ناپسندیدہ عمل ہے، اِس سے بچنا چاہیے۔

   ضابطہ شرعیہ:نماز کے دوران اعمالِ نماز کے علاوہ کوئی دوسرا فعل کرنے کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ عملِ قلیل، جو نمازی کے لیے مفید ہو،مثلاً:بضرورت پسینہ صاف کرنا یا  رکوع سے اٹھتے وقت کپڑوں کی اصلاح کرنا،   یہ عمل بلاکراہت شرعاً  جائز ہے۔ اور ایسا عملِ قلیل کہ جو نمازی کے لیے مفید نہ ہو،  مثلاً :بلاضرورت جسم پر خارش کرنا،  تو  ایسا عمل شرعاً ناپسندیدہ اور مکروہِ تنزیہی ہے۔

   دورانِ نماز پسینہ صاف کرنانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، چنانچہ ”المعجم الکبیر للطبرانی“ میں ہے:’’ كان النبي صلى اللہ عليه وسلم  يمسح العرق عن وجهه في الصلاة‘‘ترجمہ:نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم دورانِ نماز اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف فرمایا کرتے تھے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، جلد11، صفحہ 398، مطبوعہ قاھرہ)

   دورانِ نماز عملِ قلیل کے متعلق ضابطہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/1836ء) نے لکھا:’’أن كل عمل هو مفيد للمصلي فلا بأس به ، أصله ما روي «أن النبي صلى اللہ عليه وسلم عرق في صلاته فسلت العرق عن جبينه» أي مسحه لأنه كان يؤذيه فكان مفيدا۔۔۔فأما ما ليس بمفيد فهو العبث‘‘ترجمہ:ہر وہ عملِ قلیل  کہ جو نمازی کے لیے  فائدہ بخش ہو، اُسے کرنے  میں  کوئی حرج نہیں۔ اِس کی اصل وہ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کو نماز میں پسینہ آیا تو آپ نے اپنی پیشانی مبارک سے پسینہ صاف کیا۔“ کیونکہ  پسینہ نمازی کو پریشان کرتا ہے، لہذا اِسے پونچھنا مفید عمل ہے اور جو عمل نمازی کے لیے  فائدہ مند نہ ہو،تو وہ عمل مفید بھی نہیں، بلکہ ”عبث“ ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 02، صفحہ 289 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:’’یونہی حاجت کے وقت پیشانی سے پسینہ پوچھنا، بلکہ ہر وہ عملِ قلیل کہ مصلی  کے ليے مفید ہو ،جائز ہے اور جو مفید نہ ہو، مکروہ ہے۔(بھار شریعت، جلد01، حصہ03، صفحہ631، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   دورانِ نماز پسینہ صاف کرنے کے متعلق  جید فقہائے احناف کے کراہت وعدمِ کراہت، دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں، چنانچہ قولِ کراہت بیان کرتے ہوئے علامہ سدید الدین محمد بن محمد کاشْغَری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:860ھ/1455ء) لکھتےہیں:’’یکرہ ان یمسح عرقہ او التراب من جبھتہ فی اثناء الصلاۃ ‘‘ ترجمہ:دورانِ نماز اپنی پیشانی سے مٹی یا پسینہ صاف کرنا ،مکروہ ہے۔(منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی ، جلد 02، صفحہ 239، مطبوعہ لاھور)

   جبکہ بلاکراہت جواز ثابت کرتے ہوئے فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 593ھ/1196ء) نے لکھا:’’لا بأس بأن يمسح العرق عن جبهته في الصلاة‘‘ ترجمہ:دورانِ نماز اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔(فتاوٰی قاضی خان، جلد01، صفحہ 111، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   دونوں طرح کی فقہی روایات میں تطبیق بیان کرتے ہوئے شمس الدین علامہ ابنِ امیر الحاج حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:879ھ/1474ء) لکھتے ہیں:’’ قلت: أما القول بكراهة مسح العرق، فيخالف ما في مختارات النوازل، والفتاوى الخانية ولا بأس بأن يمسح العرق عن جبهته في الصَّلاة، ويؤيده ما في الخلاصة: وقد صح عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنه سلت العرق عن جبينه، اللهم إلا أن يكون المراد بالعرق الممسوح عرقاً لم تدعه الحاجة إلى مسحه، وبالكراهة الكراهة التنزيهية، فلا بأس حينئذ ولا تنافيه العبارة المذكورة ۔۔۔ويحمل فعله ذلك في الصلاة إن ثبت عنه على أنه كان به حاجة إلى مسحه، وعلى أنه كان بياناً للجواز‘‘ ترجمہ:میں نےکہا: پسینہ پونچھنے کے مکروہ ہونے کا قول اُن جزئیات کے مخالف ہے، جو ” مختارات النوازل “ اور ” الفتاوى الخانية “ میں ہیں کہ دورانِ نماز اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ اِس کی تائید ”خلاصۃ الفتاوٰی“ کے اِس جملےسےبھی ہوتی ہے:”تحقیق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے (دورانِ نماز) اپنی پیشانی مبارک سے  پسینے کے قطراتِ مُعَطرہ کو صاف فرمایا۔“ قولِ کراہت میں صاف کیے جانے والے پسینے سے مراد ایسا پسینہ ہے، جسے صاف  کرنے کی حاجت درپیش نہ ہو اور کراہت سے مراد بھی کراہتِ تنزیہی ہے، لہذا اب عبارات میں کوئی حرج اور منافات باقی نہیں رہے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کے فعل  کوبشرطیکہ  اُس کا صحیح ہونا ثابت ہو جائے، اُس صورت پر محمول کیا جائے گا کہ سرکارِ دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ  وسلم کو پسینہ صاف کرنے کی حاجت درپیش تھی یا بیانِ جواز کے لیے آپ نے یہ عمل مبارک فرمایا  تھا۔ (حَلْبَۃ المُجَلّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد02، صفحہ 34،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   علامہ حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:956ھ/1049ء) نے بھی ”منیۃ المصلی“ کی عبارت کے تحت علت بیان کر کے دونوں روایات میں یوں تطبیق دی:’’لأنه عمل لا فائدة فيه حتى لو كان فيه فائدة بأن كان العرق يدخل عينه فيؤلمها ونحو ذلك لا يكره لحصول الفائدة وهي دفع شغل القلب‘‘ترجمہ:کیونکہ یہ ایسا کام ہے، جس کا کوئی فائدہ نہیں، ہاں اگر پسینہ صاف کرنے میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً :پسینہ آنکھ میں داخل ہو کر تکلیف دے گا یا اِس کی طرح کوئی دوسرا فائدہ ہو، تو پھر پسینہ صاف کرنا مکروہ بھی نہیں، کیونکہ ایک فائدہِ صحیحہ  کا حصول مقصود ہے اور وہ فائدہ ”توجہ کے مضطرب ہونے “ کو دور کرنا ہے۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، جلد 02، صفحہ 239، مطبوعہ  لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم