Namaz Ke Doran Danton Mein Phansi Hui Cheez Nigalna

نماز کے دوران دانتوں میں پھنسی ہوئی چیز نگلنا

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2113

تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی1445 ھ/22اکتوبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز سے پہلےاگر  دانتوں میں بوٹی  کا ریشہ ہو  اور دوران نماز وہ ریشہ دانت سے نکل کر حلق سے نیچے اتر جائے یا کوئی شخص اسے اتار لے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر نماز شروع کرنے سے پہلےدانتوں میں بوٹی وغیرہ کے ریشے ہوں  اور دورانِ نماز کوئی شخص اسے نگل لے تواس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اگروہ  چنے  کی مقدار  کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو نماز ٹوٹ جائے گی۔اور   اگر وہ چنے کی مقدار سے کم  ہو تو ایسی صورت میں نماز نہیں ٹوٹے  گی،مگر ایسا کرنا مکروہ  ہے۔البتہ اگر بوٹی وغیرہ کا ریشہ  معمولی مقدار میں ہونے کی وجہ سےبغیر  نگلے، خود سے حلق میں اتر جائے تو اب اصلاً کوئی حرج نہیں ۔

   نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:’’أو اکل ما بین اسنانہ وکان دون الحمصۃ بلا عمل کثیر کرہ ولا تفسد لعسر الاحتراز عنہ‘‘ترجمہ:یا جب دانتوں کے درمیان سے کوئی چیز عمل کثیر کے بغیر کھالی اور وہ  چنے کی مقدار سے کم تھی تو یہ مکروہ ہے اور نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ اس سے بچنا مشکل ہے۔

   اس کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:’’قولہ:(وکان دون الحمصۃ)أما اذا کان قدر الحمصۃفاکثرافسدھا کما یفسد الصوم فما یفسدھا یفسدہ وما لا فلا۔قولہ:(بلا عمل کثیر)أما اذا کان مضغہ کثیرا  فلا خلاف فی الفساد کما فی البحر بخلاف ابتلاع القلیل بعمل قلیل لانہ تبع لریقہ،ولا یمکن الاحتراز عنہ‘‘ترجمہ:اور ان کا قول : چنے کی مقدار سے کم  ہو۔بہرحال جب وہ چنے کی مقدار جتنا یا اس سے زائد ہو تو وہ نماز کو فاسد کردے گا جیسے روزے کو فاسد کردے گا۔لہذا جو روزے کو فاسد کردے تو وہ نماز کو بھی فاسد کردیتا ہے اور جو روزے کو فاسد نہ کرے تو وہ نماز کو بھی فاسد نہیں کرے گا۔اور ان کا قول کہ بغیر عمل کثیر کے۔بہرحال جب اسے خوب چپایا تو اب(عمل کثیر کے پائے جانے کی وجہ سے) نماز کے فساد میں اختلاف نہیں جیسا کہ بحر میں ہے۔برخلاف قلیل مقدار کو عمل قلیل  کے ذریعے نگلنے کے، کیونکہ یہ تھوک کے تابع ہے اور اس سے بچنا ممکن نہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،صفحہ341،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم