Namaz e Zohar Ye Soch Kar Shuru Ki Ke Abhi Waqt Baqi Hai, Lekin Haqeeqat Mein Waqt Khatam Ho Chuka Tha, Namaz Ka Kya Hukm Hai?

نمازِ ظہر یہ سوچ  کر شروع کی کہ ابھی وقت باقی ہے، لیکن حقیقت میں وقت ختم ہو چکا تھا، نماز کا کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12191

تاریخ اجراء:23شوال المکرم1443ھ/25مئی2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی شخص نے نمازِ ظہر یہ سمجھ کر شروع کی کہ ابھی وقت باقی ہے، لیکن نماز پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ وقت تو ختم ہوچکا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں جو نمازِ ظہر ادا کی گئی، کیا وہ نماز ادا ہوگئی؟ یا پھر اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا؟؟ رہنمائی فرمادیں سائل: ابو فیضان

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر تو اس شخص نے نمازِ ظہر وقت میں شروع کی تھی مگر سلام پھیرنے سے پہلے ہی نماز کا وقت ختم ہوگیا، تو اس صورت میں وہ نمازِ ظہر ادا ہوگئی، کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق فجر، جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں میں اگر نمازی وقت کے اندر تکبیرِ تحریمہ کہہ لے، تو اس کی وہ نماز ادا ہوجائے گی۔

   البتہ اگر اس شخص  نے نمازہی وقت ختم ہونے کے بعد  شروع کی تھی  اگرچہ اس کےاپنے  خیال میں نماز کا وقت ابھی باقی تھا، تو اس صورت میں بھی اس کی وہ نمازِ ظہر درست ہی ادا ہوگی  کہ قضا نماز ادا کی نیت سے اور ادا نماز قضا کی نیت سے بھی ادا ہوجاتی ہے،  جیسا کہ فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے۔

   یہاں تک تو پوچھے گئے سوال کا جواب تھا البتہ صورتِ مسئولہ میں اگر اس کوتاہی میں  خطا کے بجائے غفلت کار فرما تھی تو نماز قضا کرنے کے گناہ سے توبہ کرنا بھی اس شخص پر ضروری ہے۔

تفصیلی جزئیات درج ذیل ہیں:

   دورانِ نماز اگر وقت ختم ہوجائے، تو وہ نماز ادا  ہوگی۔ جیسا کہ مجمع الانہر میں ہے: لو شرع في الوقتية عند الضيق ثم خرج الوقت في خلالها لم تفسدترجمہ: ”اگر تنگ ( یعنی آخری ) وقت میں وقتی نماز شروع کی اور اسی دوران اس نماز کا وقت نکل گیا ، تو وہ نماز فاسد نہیں ہوگی۔ “(مجمع الانھر ، کتاب الصلوٰۃ ، ج 01 ، ص216، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” وقت میں اگر تحریمہ باندھ لیا ، تو نماز قضا نہ ہوئی ، بلکہ ادا ہے، مگر نمازِ فجر و جمعہ و عیدین کہ ان میں سلام سے پہلے بھی اگر وقت نکل گیا ، نماز جاتی رہی۔(بہار شریعت، ج 01، ص 701، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نمازی نے وقت ختم ہونےکے بعد یہ گمان کرکے کہ وقت ابھی باقی ہے نماز شروع کی، تو وہ نماز ادا ہوجائے گی کہ قضا ادا کی نیت سے جائز ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:”في "الاشباه"عن"الفتح": لو نوى الاداء على ظن بقاء الوقت فتبين خروجه أجزأه، وكذا عكسه، ثم مثل له ناقلا عن"كشف الاسرار"بقوله: كنية من نوى أداء ظهر اليوم بعد خروج الوقت على ظن أن الوقت باق، وكنية الاسير الذي اشتبه عليه رمضان فتحرى شهرا وصامه بنية الاداء فوقع صومه بعد رمضان، عكسه كنية من نوى قضاء الظهر على ظن أن الوقت قد خرج ولم يخرج بعد، وكنية الاسير الذي صام رمضان بنية القضاء على ظن أنه قد مضى والصحة فيه باعتبار أنه أتى بأصل النية، ولكن أخطأ في الظن، والخطأ في مثله معفو عنه ا ھ۔ أقول: ومعنى كونه أتى بأصل النية أنه قد عين في قلبه ظهر اليوم الذي يريد صلاته فلا يضر وصفه له بكونه أداء أو قضاء۔ “ترجمہ: ” "اشباہ"میں"فتح القدیر "کے حوالے سے ہے کہ اگر نمازی نے یہ گمان کرتے ہوئے کہ نماز کا وقت ابھی باقی ہے وقتی  نماز کی نیت باندھی پھر نماز کے وقت کا نکل جانا اس پر ظاہر ہوا تو اس کی وہ نماز ادا ہوجائے گی، یہی اس کے عکس کا حکم ہے۔ پھر صاحبِ فتح القدیر نے "کشف الاسرار"کے حوالے سے اس کی مثال بیان کی جیسے اس نمازی کی نیت جس نے وقت نکلنے کے بعد اسی  دن کی ظہر کی نیت کی اس گمان پر کہ ابھی وقت باقی ہے (تو اس کی وہ ظہر کی قضا نماز ادا کی نیت سے بھی درست ہوگی)، اور اس قیدی کی نیت جس پر ماہِ رمضان مشتبہ ہوا تو  اس نے تحری کی کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور پھر ادا کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا جبکہ در حقیقت اس کاوہ  روزہ رمضان کے بعد واقع ہواہو(تو اس کاوہ  رمضان کا قضا روزہ ادا کی نیت سے بھی درست ہوگا)، اس کے عکس کی مثال یہ ہے کہ جیسے اس نمازی کی نیت جس نے ظہر کی نماز قضا  کی نیت سے ادا کی اس گمان پر کہ وقت نکل چکا  ہے اور نماز کے بعد معلوم ہوا کہ وقت تو ختم نہیں ہوا تھا(تو اس کی ظہر کی ادا نماز قضا کی نیت سے بھی درست ہو گی)، اور جیسا کہ اس قیدی کی نیت جس نے قضاکی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا اس گمان پر کہ رمضان کامہینہ  گزر چکا ہے(تو اس کا رمضان کاادا روزہ قضا کی نیت سے بھی درست ہوگا)، یہاں صحت اس اعتبار سے ہے کہ اس نے اصلِ نیت تو ادا کی لیکن اس نے  گمان میں خطا کی، اور اس قسم کی خطا کو شرعاً معاف رکھا گیا ہے، الخ۔(علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ )میں کہتا ہوں کہ اس نے اصلِ نیت ادا کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دل میں اسی دن کی ظہرکی نماز  کو معین کیا کہ جس کے پڑھنے کا اس نے ارادہ کیا تھا،  پس اس نماز  کے وصف میں ادا یا قضاء کے اعتبار سے خطا کا ہونا مضر نہیں۔“ (رد المحتارمع در المختار، کتاب الصلوٰۃ، ج 02، ص 125 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:”قضا یا ادا کی نیت کی کچھ حاجت نہیں، اگرقضا بہ نیت ادا پڑھی يا ادا بہ نیت قضا، تو نماز ہوگئی، یعنی مثلاً وقت ظہر باقی ہے اور اس نے گمان کیا کہ جاتا رہا اور اس دن کی نماز ظہر بہ نیت قضا پڑھی يا وقت جاتا رہا اور اس نے گمان کیا کہ باقی ہے اوربہ نیت ادا پڑھی ہوگئی۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 495، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم