Namaz Ke Andar Dua Mein Ghalti Karne Se Namaz Ka Hukum

 

نماز میں قراءت کے علاوہ دعائیہ کلمات میں لفظی غلطی سے نماز کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2665

تاریخ اجراء: 22 صفر المظفر 1446ھ/28 اگست 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے ایک امام صاحب سے بیان میں” اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ “کے متعلق سنا تھا ، لیکن مجھے الفاظ کی صحیح سمجھ نہیں آئی ، مجھے یوں لگا کہ امام صاحب نے ”اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ “ یعنی ” غ“ کے بغیر کہاہے ، تو میں نے یہی ” اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ “ ہی یاد کر لیا اور پھر کچھ عرصہ تک نمازوں میں دونوں سجدوں کے درمیان یہی کلمات ” اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ“ پڑھتا رہا  ۔ پھر ایک دن امام صاحب سے رابطہ ہوا ، تو انہوں نے درست کلمات بتائے ۔ آپ سے یہ شرعی رہنمائی درکار ہے کہ جن نمازوں میں میں” اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ “ پڑھتا  رہا، ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟  وہ نمازیں ہوگئیں یا ان کو دوبارہ پڑھنا ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جن نمازوں میں آپ نے ” اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ “ یعنی ” غ“ کے بغیرپڑھا تھا ، وہ نمازیں درست ادا ہوگئی ہیں ، ان کو دُہرانے کی حاجت نہیں ہے ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نماز میں قراءت ہو یا دیگر تسبیحات و اَذکارِ نماز ، ان میں اگر ایسی غلطی کی ، جس سے معنیٰ فاسد ہوجائیں ، تو نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر ایسی غلطی کی ، جس سے معنیٰ تبدیل تو ہوجائیں ، لیکن فاسد نہ ہوں تو نماز درست ہوجاتی ہے اور سوال میں بیان کردہ دعائیہ کلمات ” اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ “ کا معنیٰ ہے: ”یا اللہ ! میری بخشش فرما“اور جو آپ نے غ کے بغیر  اَللّٰھُمَّ فِرْ لِیْ “پڑھا ہے ، اس کامعنیٰ ہے:” یا اللہ !میرے لیے زیادہ فرما ۔ میری حفاظت فرما “یہ تغیرِ فاحش یعنی فاسد معنیٰ نہیں ہے ، جو نماز کو فاسد کردے ، لہٰذا آپ کی وہ نمازیں درست ہوگئی ہیں ، البتہ ان کلمات سے معنیٰ فاسد نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اب آپ ایسے ہی پڑھتے رہیں ، بلکہ آئندہ درست طریقے سے ہی پڑھیں ۔

   کسی کلمہ میں سے حرفِ اصلی کو حذف کردیا، تو صرف فسادِ معنیٰ کے وقت نماز فاسد ہوگی ، ورنہ نہیں ، چنانچہ غنیۃ المستملی میں ہے:” لو نقص حرفاً ان کان من اصول الکلمۃ و تغیر المعنیٰ تفسد فی قول ابی حنیفۃ و محمد کما لو قرأ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمۡ بحذف الراء او الزاء او قرأ ﴿وَ لِیَقُوۡلُوۡا دَرَسْتَ بغیر دال او ﴿خَلَقْنَا بغیر خاء او ﴿جَعَلْنَا بغیر جیم ۔۔۔ ان کان من الاصول و لم یتغیر المعنی کان یقرأ ﴿تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَاباللام مع حذف الیاء فی تعالٰی لا تفسد بالاتفاق “ ترجمہ:اگر کسی حرف کو کم کر دیا ، تو وہ حرف اگر کلمے کے حروفِ اصلیہ میں سے ہو اور معنیٰ تبدیل ہوجائے ، تو امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمھما اللہُ کے نزدیک نماز فاسد ہوجائے گی ، جیسا کہ اگر ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمۡ﴾ میں را یا زا کو حذف کر کے پڑھا ؛ یا ﴿وَ لِیَقُوۡلُوۡا دَرَسْتَ ﴾ (میں دَرَسْتَ) کو دال کے بغیر پڑھا ؛ یا ﴿خَلَقْنَا ﴾ کو خا کے بغیر ؛ یا ﴿جَعَلْنَا ﴾ کو جیم کے بغیر پڑھا ( تو ان صورتوں میں فسادِمعنیٰ کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی )۔۔۔ اگروہ حرف (جسے حذف کیا ہے )کلمہ کے حروف اصلیہ میں سے ہواور (اسے حذف کرنے سے ) معنیٰ میں تبدیلی نہ آئے ، مثلاً ﴿تَعَالٰی جَدُّ رَبِّنَامیں تَعَالٰی کے یا کوحذف کرکے صرف لام کے ساتھ (تعالَ) پڑھا، تو بالاتفاق نماز فاسد نہیں ہوگی ۔ (غنیۃ المستملی ، کتاب الصلوٰۃ ،فصل فی احکام زلۃ القارئ ، صفحہ 418، مطبوعہ کوئٹہ)

   قراءت کے علاوہ تسبیحات یا اذکارِ نماز میں معنیٰ فاسد کرنے والی غلطی پائی جائے، تو بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے ، چنانچہ رکوع کی تسبیح میں عَظِیْم کی جگہ عَزِیْم پڑھنے سے نماز سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” السنة في تسبيح الركوع سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمإلا إن كان لا يحسن الظاء فيبدل به الكريم لئلا يجري على لسانه العزيم فتفسد به الصلاة كذا في شرح درر البحار، فليحفظ فإن العامة عنه غافلون حيث يأتون بدل الظاء بزاي مفخمة “ترجمہ: رکوع کی تسبیح میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمپڑھنا سنت ہے ، ہاں اگر ظا کو اچھے طریقے سے ادا نہ کر سکتا ہو ، تو عظیم کی جگہ کریم پڑھ لے ، تاکہ اس کی زبان پر عزیم نہ جاری ہوجائے کہ اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے ، جیسا کہ شرح درر البحار میں ہے ۔ اسے یادرکھنا چاہیے ، کیونکہ عوام اس سے غافل ہیں کہ وہ ظا کی جگہ زا پڑھتے رہتے ہیں ۔( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ ، باب صفۃ الصلوٰۃ ، قَبل مطلب فی اطالۃ الرکوع ، جلد 2 ، صفحہ 242، مطبوعہ کوئٹہ )

   بہارِ شریعت میں ہے: ”قراء ت یا اذکارِ نماز میں ایسی غلطی جس سے معنیٰ فاسد ہو جائیں، نما زفاسد کر دیتی ہے۔“ (بھارِ شریعت ، حصہ 3 ، جلد 1 ، صفحہ 614 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   فِرْ“ عربی گرائمر کے اعتبار سے وَفْراً سے امر کا صیغہ ہے اور وَفْراً سے متعلق عربی سے اردو کی مشہور ڈکشنری ” المنجد “اور ”مصباح اللغات “میں ہے: واللفظ للاول وَفَرَ یَفِرُ وَفْراً وَ فِرَۃً ۔ زیادہ کرنا ، پورا کرنا ۔حفاظت کرنا ۔“ (المنجد ، صفحہ 987 ، مطبوعہ لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم