جسم یا کپڑوں
پر نجاست لگی ہو اور نماز کا وقت کم ہو ، تو نماز کا کیا حکم ہے ؟
مجیب:محمد ساجدعطاری
مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:Mad-1611
تاریخ اجراء:15ربیع الثانی1437ھ/26جنوری2016ء
کیا فرماتے ہیں علمائے
دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر
کسی شخص کے جسم یا کپڑوں پر نجاست لگی ہو اور نماز کا وقت اتنا
کم ہو کہ طہارت بقدرِ جوازِ نماز حاصل کرنے
میں نماز کا مکمل وقت نکل
جائے گااور کپڑا تبدیل بھی نہیں کر سکتا ، تو ایسی
صورت میں کیا حکم ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کسی آدمی
کو طہارت حکمی حاصل ہے یعنی وضو و غسل مکمل ہے ،فقط جسم
یا کپڑوں پر نجاست لگی ہےاور
اتنی طہارت جس کے ساتھ نماز جائز ہو سکے، حاصل کرنے میں
نماز کا مکمل وقت نکل جائے گااور اس کے پاس کوئی دوسرا کپڑا
بھی موجود نہیں ،جسے جلدی سے پہن کر نماز وقت میں ادا کر
سکے اور یہ ناپاک کپڑا ستر عورت کے لیے پہننا بھی لازم ہو، تو
اس کو حکم ہے کہ اسی طرح نجاست کے ساتھ نماز ادا کر لے اور بعد میں
طہارت حاصل کر کے دوبارہ پڑھے،یہ
دوبارہ پڑھنا محض مستحب نہیں ،بلکہ فرض ولازم ہے ، کیونکہ اصل مذہب کے
مطابق نجاست کے ساتھ نماز پڑھنا درست
ہی نہ تھا،لہذا اصل مذہب کے مطابق وہ نماز ہی نہیں ہوئی
اور اسی کی رعایت رکھتے ہوئے یہ حکم ہے کہ طہارت کے ساتھ
نماز دوبارہ پڑھے تاکہ اصل مذہب کے مطابق بھی اپنے فرض سے سبکدوش (بری
)ہو جائے۔
یہ واضح رہے کہ
اگر اس نےبلا عذر شرعی نجاست سے پاکی حاصل کرنے میں اتنی
تاخیر کی تو وہ گنہگار بھی ہوا، لہٰذا اسے توبہ بھی
کرنی ہوگی ۔
تفصیل کچھ
یوں ہے کہ جو شخص نجاستِ حقیقی و حکمی سے طہارت حاصل کرنے پر قادر ہے، تو ایسے
شخص کے لیے شرعی حکم ہے کہ وہ طہارت حاصل کرکے نمازِ پنجگانہ ادا کرے
اور اگر طہارت حاصل کرنے پر قادر نہ ہو ،مثلاً:پانی ایک میل کے
اندر موجود نہیں یا
کوئی بیماری ایسی ہے کہ جس میں پانی
استعمال کرنا نقصان دہ ہو ،تو شریعت نے رخصت کی صورتیں
رکھی ہیں، مثلا:وضو و غسل کی جگہ تیمم کر لے یا نجس
کپڑے میں ہی نماز پڑھ لے ، اس تفصیل کے مطابق جوکتب فقہیہ
میں موجود ہے ۔
اور تیسری صورت جس
میں بندہ طہارت حاصل کرنے پر ہر طرح سے قادر ہے، مگر نماز کا وقت اتنا کم ہے
کہ نماز کی طہارت حاصل کرتے کرتے نماز کا وقت نکل جائے گا ، مثلاً
پانی موجود ہے لیکن نماز کا وقت اتناکم ہے کہ غسل کرنے میں سارا
وقت نکل جائے گا یا کنویں میں پانی موجود ہے لیکن
وہاں لوگوں کا ہجوم ہے کہ اپنی باری آتے آتے وقت نکل
جائے گا یا ناپاک کپڑا دھوتے دھوتے وقت چلے جانے کا خوف ہے تو اب ان صورتوں
میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟
اس بارے میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔
(1)امام زفر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شریعت نے
جو رخصت قدرت نہ ہونے کی صورت میں دی تھی وہ رخصت اُس وقت
بھی ملے گی جب طہارت حاصل کرنے میں نماز کا وقت نکل جانے کا خوف
ہو۔ لہٰذا اس صورت میں وضو یا غسل کی جگہ
تیمم کرنے کی اجازت ہوگی یونہی ناپاک جگہ پر نماز
ادا کرنے کی بھی اجازت ہوگی ۔
(2)جبکہ ائمہ ثلاثہ یعنی امام اعظم و صاحبین رضی اللہ
عنہم کا اصول یہ ہے کہ جن نمازوں کا
بدل موجود ہے جیسے نماز پنجگانہ کا بدل ان کی قضا کی صورت
میں موجود ہے ، ان میں طہارت پر قدرت ہونے کی صورت میں
محض وقت نکل جانے کے خوف سےوہ رخصت نہیں ملے گی ، جو شریعت نے
قدرت نہ ہونے کی صورت میں دی تھی ،بلکہ اس صورت میں
حکم ہوگا کہ نجاست حقیقی و حکمی سے طہارت حاصل کرنے کے بعد
ہی نماز ادا کرے اگرچہ وقت نکل جانے کا خوف ہو اوراگر وقت نکل جائے تو ان
نمازوں کی قضا پڑھے۔
منیہ اور اس
کی شرح غنیہ میں ہے:”لوخاف خروج
الوقت لو اشتغل بالوضؤ فی سائر الصلوات ما عدا صلوۃ الجنازۃ و
العید لا یتیمم عندنا، بل یتوضا و یقضی
الصلوۃ ان خرج الوقت وقال زفر یتیمم و لا یتوضو…….قد
قالوا الاصل ان ما یفوت لاالی
خلف یجوز ان یتیمم خوف فواتہ کالجنازۃ و ما یفوت
الی خلف لا یجوز التیمم لخوف فوتہ بل یتوضؤ فان فات
یاتی بخلفہ“ترجمہ: نماز جنازہ و عید کے علاوہ باقی
ساری نمازوں میں اگروضو کرنے
میں نماز کا وقت نکل جانے کا خوف ہو ،تو ہمارے نزدیک وہ تیمم
نہیں کر سکتا ،بلکہ وضو کرے اور وقت نکل جانے کی صورت میں نماز
کی قضا کر لے اور امام زفر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وضو
نہ کرے،بلکہ تیمم کر لے۔ ہمارے علماء فرماتے ہیں اصل یہ
ہے کہ جس نماز کا فوت ہونے کی صورت میں کوئی بدل نہ ہو اس کے فوت ہونے کا خوف ہو تو تیمم
کر لے جیسے نماز جنازہ ہے اور جس نمازکے فوت ہونے پر کوئی بدل ہو اس
کے فوت ہونے کا خوف ہو، تو تیمم جائز نہیں، بلکہ وضو کرے اس دوران اگر
نماز فوت ہو جائے، تو اس کا بدل ادا کرے۔(غنیۃ شرح
المنیۃ، جلد1، صفحہ72،73 ، مطبوعہ کوئٹہ)
بحر الرائق میں ہے:”وبما قررناه
علم أن المعتبر المسافة دون خوف فوت الوقت خلافا لزفر وفي المبتغى بالغين المعجمة
ومن كان في كلة جاز تيممه لخوف البق أو مطر وحر شديد إن خاف فوت الوقت اهـ ولا يخفى أن هذا مناسب لقول زفر لا لقول أئمتنا،
فإنهم لا يعتبرون خوف الفوت، وإنما العبرة للبعد كما قدمناه كذا في شرح منية المصلي
…..ويتفرع على هذا الاختلاف ما لو ازدحم جمع على بئر لا يمكن الاستقاء منها إلا
بالمناوبة لضيق الموقف أو لاتحاد الآلة للاستقاء ونحو ذلك، فإن كان يتوقع وصول
النوبة إليه قبل خروج الوقت لم يجز له التيمم بالاتفاق وإن علم أنها لا تصير إليه
إلا بعد خروج الوقت يصبر عندنا ليتوضأ بعد الوقت، وعند زفر يتيمم “ترجمہ: اور جو ہم نے تقریر بیان کی اس سے معلوم ہوگیا
کہ تیمم کی رخصت میں مسافت یعنی پانی سے دور
ہونے کا اعتبار ہے نہ کہ وقتِ نماز کے فوت ہونے کا بخلاف امام زفر کے اور
مبتغی (غین معجمہ کے ساتھ)میں ہے ”جو کسی محفوظ
خیمے میں تو مچھروں کے
اندیشے سے یا بارش و سخت گرمی کی صورت میں اسے
تیمم جائز ہے، جبکہ وقت نکل جانے کا خوف ہو۔“مخفی نہیں کہ
یہ مسئلہ امام زفر کے قول کے موافق ہے ،نہ کہ ہمارے ائمہ کے ،کیونکہ
ہمارے ائمہ فوتِ وقت کا اعتبار نہیں کرتے ،بلکہ پانی سے دوری کا
اعتبار کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے شرح منیۃ
المصلی کے حوالے سے بیان کیااور اس اختلاف پر یہ مسائل
متفرع ہوتے ہیں کہ اگر کسی کُنویں پر ہجوم جمع ہے اور
باری باری پانی نکالنے کے سوا کوئی گنجائش نہیں اس
لیے کہ کھڑے ہونے کی جگہ تنگ ہے یا ڈول رسّی ایک
ہی ہے یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہے،تو اس صورت
میں اگراسے وقت نکلنے سے قبل اپنی باری آنے کی
امید ہے ،تو بالاتفاق اس کے لیے تیمم جائز نہیں اور اگر
معلوم ہے کہ جب تک اس کی باری
آئے گی وقت نکل چکاہوگا ،تو ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ انتظار
کرے تاکہ وقت کے بعد وضو کرسکےاور امام زفر کے نزدیک یہ حکم ہے کہ
تیمم کرلے۔(بحر، جلد1، صفحہ147، دار الکتاب الاسلامی)
لیکن ائمہ ثلاثہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہم سے ہی
ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ وقت نکل جانے کا خوف
ہو، تو اس صورت میں بھی تیمم کی یا نجاست کے ساتھ
ہی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے (یعنی یہ روایت
امام زفر کےمطابق ہے ۔)اور فقہائے کرام فرماتے ہیں ان دونوں مسئلوں
میں فرق کوئی نہیں ہے، لہٰذا ایک مسئلے میں
جو روایت ہے ،وہ دوسرے مسئلے کی روایت بھی کہلائے
گی ،تو گویا ان مسئلوں
میں ائمہ ثلاثہ کی دو روایتیں ہیں۔
بحرکے مذکورہ بالا مقام پر
ہی صاحب بحر لکھتے ہیں:”التيمم لخوف فوت الوقت رواية عن مشايخنا ذكرها في
القنية“ ترجمہ: وقت فوت ہونے کے خوف کی وجہ سے تیمم (کی اجازت ہونا
) بھی ہمارے مشائخ سے ایک روایت ہے ، جسے قنیہ نے ذکر
کیا ہے۔(بحر، جلد1، صفحہ147، دار الکتاب الاسلامی)
امام اہلسنت سیدی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں:”والاوضح
سندا والاجل معتمدا مافی الحلیۃ والغنیۃ عن
المجتبی عن الامام شمس الائمۃ الحلوانی المسافر اذا لم یجد مکانا طاھرا بأن کان
علی الارض نجاسات وابتلت بالمطر واختلطت فان قدر علی ان یسرع
المشی حتی یجد مکانا طاھرا للصلاۃ قبل خروج الوقت فعل
والا یصلی بالایماء ولایعید ثم قال الحلوانی
اعتبر ھھنا خروج الوقت لجواز الایماء ولم یعتبرہ لجواز التیمم
ثمہ وزفر سوی بینھما وقد قال مشائخنا فی التیمم انہ
یعتبر الوقت ایضا والروایۃ فی ھذا روایۃ لہ اذلافرق
بینھما والروایۃ فی فصل التیمم روایۃ
فی ھذا ایضا قال الحلوانی فاذا فی المسألتین
جمیعا روایتان اھ۔(ترجمہ : )سند کے لحاظ سے
زیادہ واضح اور اعتماد کے لحاظ سے زیادہ جلیل القدر عبارت وہ ہے
جو حلیہ اور غنیہ میں مجتبیٰ سے، اور اس میں
امام شمس الائمہ حلوانی سے منقول ہے:”مسافر کو جب پاک جگہ نہ ملے اس طرح کہ
زمین پر نجاستیں پڑی ہُوئی تھیں اور زمین
بارش سے بھیگ کر نجاستوں سے آلودہ ہوگئی تو اگر وہ یہ کرسکتا ہو
کہ تیز چل کر ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں وقت نکلنے سے پہلے اسے
نماز پڑھنے کے لیے کوئی پاک جگہ مل جائے گی، تو ایسا
ہی کرے ورنہ اشارے سے نماز ادا کرلے اور اس کا اعادہ اس کے ذمہ
نہیں“پھر حلوانی فرماتے ہیں: جواز اشارہ کے لیے
یہاں خروج وقت کا اعتبار فرمایا ہے اور وہاں جوازِتیمم کے
لیے اس کا اعتبار نہیں کیا اور امام زفر نے دونوں جگہ ایک
جیسا حکم دیا۔ اور ہمارے مشائخ نے تیمم کے بارے میں
فرمایا ہے کہ وقت کا بھی اعتبار ہوگا اور اس (مسئلہ مسافر) میں
روایت کا ہونا اُس (مسئلہ تیمم) میں بھی روایت ہونا
ہے کیونکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اور مسئلہ
تیمم میں روایت کا ہونا اس (مسئلہ مسافر) میں بھی
روایت ہونا ہے۔ حلوانی فرماتے ہیں: تو دونوں ہی
مسئلوں میں دو۲ دو۲ روایتیں ہوں گی۔ اھ (ت)
اقول: الضمیر فی قولہ اعتبر ھھنا ولم
یعتبر ثم لمحمد ومسألۃ المسافر قول ائمتنا فالروایۃ عنھم
فیھا روایۃ عنھم فی التیمم انہ یجوز لخوف فوت
الوقت ومسألۃ التیمم انہ لایجوز لحفظ الوقت ایضا قولھم
فالروایۃ فیھا روایۃ فی مسألۃ المسافر
انہ یمشی حتی یخرج من ذلک المکان ولایصلی ثمہ
وان خرج الوقت فاذن لھم فی کلتا المسألتین قولان غیران
مسألۃ المسافر اشتھرت بحکم الاجازۃ ومسألۃ التیمم بحکم
المنع (ترجمہ : )اقول: ان کی عبارت ’’اعتبرھهنا، ولم یعتبر ثم‘‘ (یہاں اعتبار فرمایا اور وہاں اعتبار نہ کیا) میں
ضمیر امام محمد کے لیے ہے اور مسئلہ مسافر ہمارے ائمہ کا قول ہے، تو
اس مسئلہ میں ان سے روایت ہوناتیمم کے بارے میں بھی
ان سے یہ روایت ہونا ہے کہ وقت نکل جانے کے اندیشہ سے بھی
جائز ہے اور مسئلہ تیمم کہ حفظِ وقت
کے پیشِ نظرتیمم جائز نہیں یہ بھی ہمارے ائمہ کا
قول ہے، تو جو اس مسئلے میں روایت ہے ، یہی ایک
روایت مسئلۂ مسافر کے بارے میں بھی ہے کہ وہ اس جگہ سے
چل کر نکل جائے اور وہاں نماز نہ پڑھے اگرچہ وقت جاتارہے۔ اس تفصیل سے
ظاہر ہوا کہ دونوں ہی مسئلوں میں ان کے دو۲ قول ہیں، یہ بات الگ ہے کہ مسئلہ مسافر حکم اجازت سے مشہور
ہوگیا اور مسئلہ تیمم حکم ممانعت سے شہرت پاگیا۔“(فتاوی
رضویہ، جلد3، صفحہ443، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
حاصل کلام یہ ہوا کہ فقہ
حنفی کے اصل مذہب کے مطابق طہارت حاصل کرنے میں اگر وقت نکل جانے کا
خوف ہو ، توتیمم کرنے یا نجاست کے ساتھ نماز ادا کرنے کی رخصت
نہیں ،بلکہ طہارت حاصل کرنی ہوگی، اگرچہ وقت نکل جائے،
جبکہ امام زفراور ہمارے ائمہ ثلاثہ
کی دوسری روایت کے مطابق ایسی صورت میں رخصت ہے تیمم کر لے یا نجاست کے
ساتھ نماز ادا کر لے ۔
اور بعد میں آنے والے
کئی مشائخ نےامام زفر کا قول اختیار کیا اور محققین نے
امام زفر کے دلائل کو بھی قوی قرار دیا (جس کی مکمل
تفصیل امام اہلسنت علیہ الرحمۃ کے رسالے ”الظفر لقول زفر“میں دیکھی جا سکتی ہے ۔)لہٰذا فقہائے
کرام نے اس مسئلے میں احتیاطی پہلو کو اختیار کیا
اور فرمایا کہ اگر کوئی آدمی وقت کے اندر طہارت حاصل نہ
کر سکتا ہو، تو وہ امام زفر و ائمہ ثلاثہ کی دوسری روایت کے
مطابق نجاست حکمی کی صورت میں
تیمم کرلے اور نجاست حقیقی کی صورت میں
اسی طرح وقت میں نماز ادا کر لے اور پھر اصل مذہب حنفی کی
رعایت کرتے ہوئے وقت کےبعدنجاست حقیقی و حکمی سے طہارت حاصل کر کے نماز کا اعادہ کر لے ، تاکہ
احناف کے تمام ائمہ کی روایات کے مطابق نماز درست ہو جائے اور
آدمی اپنے فرائض سے یقینی طور پر سبکدوش ہو
جائے،چنانچہ درمختار میں ہے:”لا يتيمم
لفوت جمعة ووقت ولو وترا لفواتها
إلى بدل، وقيل(ھو قول زفر) يتيمم لفوات الوقت. قال الحلبي: فالأحوط أن يتيمم ويصلي
ثم يعيده “مزیدا من ردالمحتا ر بین الھلالین ‘‘ترجمہ: جمعہ یا وقتی نماز کے فوت ہونے کی وجہ سے تیمم
نہ کرے ،اگرچہ وتر ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ جب یہ فوت ہو
جائیں،تو ان کا بدل موجود ہوتا ہے اور ایک قول جو امام زفر کا ہے، وہ یہ ہے کہ وقتی نماز کے فوت ہونے
کی وجہ سے بھی تیمم کر سکتا ہے اور امام حلبی نے
فرمایا :احتیاط اس میں ہے کہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور
پھر اس کا اعادہ کرے ۔
اس کے تحت خاتم المحققین
حضرت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ لکھتے ہیں:” وھذا قول
متوسط بین القولین،
وفیہ الخروج عن العھدۃ
بیقین فلذا أقرہ الشارح،
ثم رأیتہ منقولا
فی التتارخانیۃ عن أبی نصر بن سلام وھو من کبار
الأئمۃ الحنفیۃ قطعا، فینبغی العمل بہ
احتیاطا ولا سیما وکلام ابن الھمام یمیل إلی
ترجیح قول زفر کما علمتہ، بل قد علمت من کلام القنیۃ أنہ
روایۃ عن مشایخنا الثلاثۃ“ترجمہ: اور
یہ یعنی علامہ حلبی والا قول ہی متوسط راہ ہے ،اس
میں بالیقین آدمی اپنے فریضہ نماز کے ذمہ سے
بری ہو جاتا ہے اور یہ احناف کے بہت بڑے فقیہ امام ابو نصر بن
سلام سے منقول ہے۔لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ
اس پر عمل کیا جائے بالخصوص اس وقت کہ علامہ ابن ہمام جیسے فقیہ
بھی امام زفر کے قول کی طرف مائل ہیں، بلکہ قنیہ
میں ہے کہ ہمارے ائمہ ثلاثہ سے بھی ایک روایت اسی
طرح ہے۔(درمختار مع رد المحتار ،باب التیمم ،جلد1،صفحہ246،دار الفکر
،بیروت)
یونہی امام اہلسنت
علیہ الرحمۃ نے صاحب بحر رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کے حوالے سے چند مسائل نقل فرمائے ، جن میں سےچوتھا مسئلہ
یہ ہے : ” معہ ثوب نجس وماء لغسلہ ولکن لوغسل خرج الوقت لزم غسلہ وان خرج(ترجمہ : ) جزئیہ نمبر۴: کسی کے
پاس ایک ناپاک کپڑا ہے اور اس کے دھونے کے لیے پانی بھی
موجود ہے، لیکن اگر کپڑا دھونے میں لگتا ہے تو نماز کا وقت نکل جائےگا
،اس پر لازم ہے کہ کپڑا دھوئے (اور پاک کپڑے سے ہی نماز ادا کرے)اگرچہ وقت
نکل جائے۔“(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ453، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
پھر کچھ آگے چل کر
اسی مسئلے پر مزید کلام کرتے ہوئے اور اپنا موقف بیان کرتے ہوئے
لکھتے ہیں:” اما الفروع الاربعۃ الاُول فاقول: کذا الحکم فیھا بید انہ
یعید اما الحکم فلما قدمت عن الحلیۃ والغنیۃ
عن شمس الائمۃ انہ لافرق فی تلک الفروع وان الروایۃ
فی احدٰھا روایۃ فی سائرھا وقدکان ھناک اعنی
فرع شمس الائمۃ التلبس بالنجاسۃ ولو فی القدمین
اوالخفین مع ترک الرکوع والسجود ولیس فی ھذا الفرع الرابع الا
التلبس بنجس واما الاعادۃ فلما علمت من مراعاۃ اصل المذھب“ترجمہ: اب رہے پہلے چار جزئیات فاقول: ان میں بھی
یہی حکم ہوگایعنی نماز وقت کے اندر پڑھی جائے
گی فرق یہ ہے کہ ان صورتوں میں بعد وقت اعادہ بھی کرنا
ہوگا۔وقت کے اندر ادائے نماز کا حکم ہم نے اس قاعدہ اور جزئیہ سے اخذ
کیا جو حلیہ وغنیہ کے حوالہ سے شمس الائمہ سے ہم نے گزشتہ صفحات
میں نقل کیا کہ ان جزئیات میں فرق نہیں اور ان
میں سے کسی ایک میں وارد ہونے والی روایت سب
میں وارد کہلائے گی ۔اور وہاں یعنی شمس الائمہ کے
بیان کردہ جزئیہ میں یہ تھا کہ نجاست سے اتصال لازم آتا
تھا، اگرچہ صرف قدموں یا موزوں ہی میں، اور رکوع وسجود ترک ہوتا
تھا اور اس چوتھے جزئیہ میں بھی یہی نجس (کپڑے) سے
اتصال لازم آرہا ہے اور اعادہ کا حکم اس لیے کہ اصل مذہب کی
رعایت ہوجائے۔(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ457، رضا
فاؤنڈیشن، لاھور)
یہاں تک تو نماز پڑھنے کا
حکم تھا باقی جہاں تک تاخیر کرنے کا معاملہ ہے، تو اگر کسی نے
بلا عذر شرعی طہارت حاصل کرنے میں اتنی تاخیر کی تو
گنہگار ہوگا۔ جیسا کہ ردالمحتار میں ہے: ”وأقول إذا أخر لا لعذر فھو
عاص“ترجمہ: اگر بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرے گا ،تو وہ گنہگار
ہوگا۔(رد المحتار ،باب التیمم ،جلد1،صفحہ246،دار الفکر ،بیروت)
تنبیہ:اگر یہ معاملہ
کسی صاحب ترتیب شخص کو
پیش آیا یعنی وقت کی تنگی کے باعث اسےناپاک
کپڑوں میں نماز ادا کرنا پڑی تو اب
اس پر یہ بھی لازم ہوگا کہ اگلی نماز سے پہلے پہلے اس
نماز کو دوبارہ پڑھ لے ،کیونکہ جب اصل مذہب پر وہ نماز درست ہی نہ ہوئی تھی، تو اب
اعادہ کرنے سے پہلے صاحب ترتیب کو اگلی نماز پڑھنا بھی اصل مذہب
کے مطابق درست نہ ہوگا۔لہذا اصل مذہب کی رعایت کرنا یہاں
بھی لازم ہوگا، یوں کہ پہلے اس نماز کوطہارت کے ساتھ دوبارہ پڑھ لے اور پھر اگلی نماز
پڑھے۔(ہاں ترتیب ساقط ہونے والی صورتیں مستثنی رہیں
گی کما لا یخفی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم