مجیب:عبدہ المذنب محمد نوید چشتی عفی عنہ
فتوی نمبر:WAT-1136
تاریخ اجراء:09ربیع الاول1444ھ/06اکتوبر2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ہمارےیہاں جمعے والے دن پہلی اذان ظہر کا وقت شروع ہونےسے پہلے
زوال کے وقت میں دی جاتی ہے اور زوال کے وقت میں ہی
ہم جمعہ کی سنتیں ادا کرتےہیں ،اور پھر جب زوال کا وقت ختم ہوتاہے تو جمعے کی دوسری
اذان ہوتی ہے اور پھر خطبہ ہوتاہے اور جمعے کی نماز ادا کی جاتی
ہے ۔وہاں موجود ایک شخص کہتاہے کہ حنفیوں کے نزدیک بھی
جمعے والے دن جمعے کاوقت ظہر کا وقت شروع ہونےسے ایک گھنٹہ پہلے شروع ہو تا
ہےاس لیے جمعے والے دن ظہر کا وقت شروع ہونےسے پہلے اذان دے سکتےہیں
،حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کےدور میں بھی ایسا ہی ہوتاتھا۔ کیا یہ
بات درست ہے ؟جمعے کےدن زوال کے وقت سنتیں
پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب سے پہلے یہ ذہن نشین کر لیں کہ سورج جب خط استوا سے
مغرب کی طرف زائل ہوتا ہے تو ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، عوام جس کو زوال
کا وقت کہتے ہیں وہ اصل میں ضحوہ کبری کا وقت ہوتا ہے، جو کہ
مکروہ وقت ہے، اس میں سوائے نماز جنازہ کے کوئی اور نماز پڑھنا جائز
نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد اصل سوال کا جوا ب یہ ہے کہ جس شخص نے یہ
کہا ہےکہ احناف کے نزدیک جمعہ کا وقت ظہر کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے
شروع ہوتاہے ،اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں پہلی اذان
زوال یعنی ضحوہ کبری کے
وقت میں ہوتی تھی ،اس نے غلط کہا ہے ، کیونکہ صحابہ کرام
،تابعین ،احناف اور جمہور علمائے
امت کے نزدیک ظہر کا وقت ہی
جمعہ کا وقت ہےلہذازوال یعنی ضحوہ کبری کا وقت ختم ہونے پر جمعہ کا وقت شروع ہوتاہے،اس
لیے ضحوہ کبری کا وقت ختم ہونےسے پہلے جمعہ کی
پہلی اذان دینا درست نہیں ہے ،اگر زوال یعنی
ضحوہ کبری کاوقت ختم ہونےسے پہلے جمعہ کی اذان دی تو یہ
اذان معتبر نہیں ہوگی،ایسی صورت میں زوال کا وقت
ختم ہونے کےبعد جمعہ کی اذان کا اعادہ ضروری ہوگا۔ نیز
عام دنوں کی طرح جمعہ کےدن بھی
زوال کےوقت میں کسی بھی قسم کی نماز پڑھنا جائز نہیں
ہے اس لیے جمعہ کےدن بھی زوال کا وقت ختم ہونے کےبعد ہی جمعہ کی
سنتیں ادا کی جائیں ،اگر کبھی زوال کےوقت میں سنتیں ادا کی ہیں تو اس سےتوبہ کرنا بھی ضروری
ہے ۔
اور جن روایات میں زوال کا
وقت شروع ہونےسے پہلے خطبہ اور
نماز جمعہ وغیرہ کاذکر ہے ان کو
محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے ۔اور صحیح
احادیث کے مقا بل ہونے کی وجہ سے ترک کیا ہے،جیساکہ بنایہ
شرح ھدایہ اور دوسری کتب فقہ میں اس کی مکمل تفصیل
موجود ہے ۔
بنایہ شرح ھدایہ میں احادیث کی روشنی میں
جمعہ کا وقت بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا:” اتفق أصحابنا أن وقتها وقت
الظهر، وهو قول جمهور الصحابة والتابعين، وبه قال الشافعي،:لقوله ٓ عَلَيْهِ
السَّلَامُ إذا مالت الشمس فصل بالناس الجمعة»: واحتجوا في ذلك بحديث أنس رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ أن رسول اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس» رواه
البخاري، «وعن سلمة بن الأكوع قال: كنا نجمع مع رسول اللّٰه صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذا زالت الشمس ثم نرجع نتتبع الفيء» متفق عليه. “ترجمہ :اور ہمارے احناف کے اصحاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہر کا وقت ہی
جمعہ کا وقت ہے ،اوریہی جمہو رصحابہ تابعین کا قول ہے اور امام شافعی بھی اسی
کے قائل ہیں کیونکہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:”جب
سورج ڈھل جائے تو جمعہ کی نماز ادا کرو“اور فقہاء اس معاملے میں حضرت
انس رضی ا للہ عنہ کی اس روایت سے بھی
استدلال کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ ادا کرتے جب سورج ڈھل جاتا،اسے بخاری
نے روایت کیا ۔اور حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہےفرماتےہیں کہ ہم رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے جب سورج ڈھل جاتا
اور پھر ہم زوا ل کے بعد لوٹتے۔
مزید اسی میں ہے :” وقد قال الشافعي: وقد صلى النبي صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأبو بكر وعثمان والأئمة بعدهم كل جمعة بعد الزوال“ترجمہ :امام شافعی علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ نبی کریم
صلی
اللہ علیہ وسلم ،حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت
عثمان اور ان کے بعد کے تمام خلفاء زوال کے بعد ہی جمعہ ادا کرتےتھے “ (بنایہ
،جلد3،صفحہ52،مطبوعہ: بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟