Namaz Eid Ki Pehli Rakat Faut Hojaye To Masbooq Apni Baqiya Rakat Main Takbirain Kab Kahe ?

نماز عید کی پہلی رکعت فوت ہوجائے تو مسبوق اپنی بقیہ رکعت میں تکبیریں کب کہے؟

مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ھاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Lar-8958

تاریخ اجراء: 08ذیقعدۃ الحرام 1440ھ12جولائی2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر  نمازِ عید  کی پہلی  رکعت فوت ہو  جائے ،تو مسبوق اپنی بقیہ رکعت میں تکبیریں کہاں کہے،قراءت سے پہلے یا قراءت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسبوق عید کی نماز میں جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھنے کے لیے کھڑا ہو،تو وہ پہلےقراءت کرے، پھر تکبیرات کہے یہی راجح ہے ،لیکن اگر کسی نے پہلے تکبیرات کہہ کر پھر قراءت کی تو یہ ناجائز نہیں، نماز ہوجائے گی۔

   فتح القدیر میں ہے:”ولو سبق بركعة ورأى رأي ابن مسعود رضي اللہ عنه يقرأ أولافیما يقضي ثم يكبر تكبيرات العيد وفي النوادر يكبر أولا ،لأن ما يقضيه المسبوق أول صلاته في حق الأذكار إجماعا. وجه الظاهر أن البداءة بالتكبير يؤدي إلى الموالاة بين التكبيرات، وهو خلاف الإجماع، ولو بدأ بالقراءة يكون موافقا لعلي رضي اللہ عنه، لأنه بدأ بالقراءة فيهما“ترجمہ:اگرکسی کی ایک رکعت فوت ہوگئی اوراس کامذہب سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ والاہے، تووہ فوت شدہ رکعت کو قضا کرنے میں ابتداً قراءت کرےاورپھرعیدکی تکبیرات کہےاورنوادرمیں ہےکہ پہلے تکبیرات کہے گا،کیو نکہ مسبوق کی جونمازقضاہوئی وہ بالاجماع اذکارکے اعتبارسے اس کی نمازکاپہلاحصہ ہے۔ظاہر الروایہ کی وجہ یہ ہےکہ تکبیرات سے ابتداکرنا،تکبیرات کوپےدرپے کہنے کی طرف لے جاتاہے اوریہ خلافِ اجماع ہےاوراگروہ قراءت سے ابتداکرے،تویہ سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ سے موافقت ہے کہ انہوں نے دونوں رکعتوں میں قراءت سے ابتداکی ۔ (فتح القدیر،کتاب الصلوٰۃ ،باب صلوٰۃ العیدین،جلد2،صفحہ76،مطبوعہ کوئٹہ)

   بحرالرائق میں ہے:”المسبوق بركعة إذا قام إلى القضاء فإنه يقرأ ثم يكبر؛ لأنه لو بدأ بالتكبير يصير مواليا بين التكبيرات، ولم يقل به أحد من الصحابة، ولو بدأ بالقراءة يصير فعله موافقا لقول علي فكان أولى كذا في المحيط“ترجمہ:مسبوق جس کی ایک رکعت فوت ہوگئی، جب وہ اپنی فوت شدہ کی قضاکے لیے کھڑاہوگا تو پہلے قراءت کرے گا پھر تکبیرات کہے گا،اس لیے کہ اگر اس نے تکبیرات سے  ابتدا کی تو وہ (امام کےساتھ پڑھی دوسری اور اب اپنی قضا میں پڑھی گئی)تکبیرات کو پے درپے  کہنےوالا ہوجائے گااور یہ بات  کسی صحابی سے ثابت نہیں۔اگر وہ قراءت سے شروع کرےگا تو اس کا یہ فعل حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موافق ہوجائے اور یہ عمل اولیٰ ہے ،اسی طرح محیط میں ہے۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق،جلد2،صفحہ282، مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتار میں ہے:”(قوله لئلا يتوالى التكبير) أي لأنه إذا كبر قبل القراءة وقد كبر مع الإمام بعد القراءة لزم توالي التكبيرات في الركعتين قال في البحر ولم يقل به أحد من الصحابة ولو بدأ بالقراءة يصير فعله موافقا لقول علي  رضي الله عنه فكان أولى كذا في المحيط وهو مخصص لقولهم: إن المسبوق يقضي أول صلاته في حق الأذكار “ترجمہ(صاحب درمختار کا) قول کہ اس طرح مسلسل تکبیرات کا ہونا پایا جائے گا یعنی اگر وہ قبل ازقراءت  تکبیرات پڑھتا ہے اور امام کے ساتھ قراءت کے بعدبھی اس نے تکبیرات پڑھی ہیں، تو اس صورت میں دونوں رکعتوں میں مسلسل تکبیرات پڑھنا پایا گیا ۔بحر میں فرمایا کہ یہ عمل کسی صحابی نے نہیں فرمایا اور اگر مسبوق قراءت سے ابتدا کرتا ہے، تو یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موافقت ہوجائے گی اور یہ اولیٰ ہے ،جیسا کہ محیط میں ہے،تو یہ حکم فقہاء کے اس قول کہ’’مسبوق پہلے اذکار والی نماز پڑھے گا‘‘ کو خاص کرنے والا ہو جائے گا۔(ردالمحتار،کتاب الصلوٰۃ،جلد3،صفحہ64،مطبوعہ کوئٹہ)

   مراقی الفلاح میں ہے:”(فإن قدم التكبيرات) في الركعة الثانية(على القراءة جاز) لأن الخلاف في الأولوية لا الجواز وعدمه“ترجمہ:اگر دوسری رکعت میں تکبیرات کوقراءت پر مقد م کیا تو یہ جائز ہے ،اس لیے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اولویت  میں ہے نہ کہ جواز و عدم جواز ہونے میں ۔(مراقی الفلاح شرح نور الایضاح،باب احکام العیدین، صفحہ273، المكتبة المدینہ،کراچی)

   فتاوی امجدیہ میں اسی طرح کے سوال کے جواب میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:’’نماز عیدین میں جس کی پہلی رکعت جاتی رہی وہ جب اس کو ادا کرے، تو بہتر یہی ہے کہ پہلےقراءت کرے بعد میں تکبیرات کہے،کلیہ اس امر کو مقتضی نہیں کہ پہلےتکبیر کہی جائے۔پہلی رکعت میں تکبیرات کا تقدم اس وجہ سے تھا کہ تکبیر تحریمہ سے اس کا الحاق بہ نسبت تکبیر رکوع کے اولیٰ تھا۔بحر الرائق میں ہے:’’فی الرکعۃ الاولی تخللت الزوائد بین تکبیرۃ الافتتاح وتکبیرۃالرکوع فوجب الضم الی احدھما والضم الی تکبیرۃ الافتتاح اولی لانھاسابقۃ وفی الرکعۃالثانیۃ الاصل فیہ تکبیرۃالرکوع لا غیرہ فوجب الضم الیھا ضرورۃًکذافی المحیط‘‘اس عبارت سے بھی یہی ثابت کہ بعد میں کہے کیونکہ مسبوق کی اس رکعت میں تکبیر افتتاح ہی نہیں دراصل اس رکعت میں تکبیر رکوع ہے، لہذااسی کے ساتھ ضم کی جائے۔جب قیاس اس امر کو مقتضی ہے کہ قراءت کے بعد کہی جائیں، تو اس کے ترک کے لیے صحابہ کرام کا قول  یا فعل درکار تھا اور جب یہ موجود نہیں ،بلکہ حضرت علی کر م اللہ تعالی وجہہ الکریم کا قول قیاس ہی کا مؤید ہے، تو اس پر عمل کیا جائے گا اور علامہ شامی اور ائمہ کی عبارت کا مطلب واضح ہو گیا ،دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں رکعتوں کی قراءت میں موالات مندوب ہے، عامۂ متون میں ہے:’’ویوالی بین القرأتین اور موالات بین التکبراتخلاف اجماع ہے ۔غنیہ ذوی الاحکام میں ہے :’’ان البدئۃ بالتکبیرات تؤدی الی الموالات بین التکبیرات وھوخلاف الاجماع‘‘اسی وجہ سے صاحب درمختار نے قراءت کو مقدم کرنے کی یہی وجہ لکھی۔‘‘(فتاوی امجدیہ،جلد 1،صفحہ 179مکتبہ رضویہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم