Namaz e Isha Aur Taraweeh Ki Jamat Masjid Ke Qareeb Ghar Mein Karwana Kaisa?

نماز عشاء اور تراویح کی جماعت مسجد کے قریب گھر میں کروانا کیسا؟

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8257

تاریخ اجراء:25شعبان المعظم1444ھ/18مارچ2023

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے  دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  میرے چاچو کا گھر اہلسنت و جماعت بریلوی مسجد سے تقریبا دو منٹ کی مسافت پر واقع ہے،ان کا بڑا بیٹا حافظ ہے،وہ اپنے گھر پر ہی رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ نمازِ تراویح کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں تاکہ بچے کا حفظِ قرآن مضبوط رہے،جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ نمازِ عشاء کی جماعت گھر پر ادا کر کے نمازِ تراویح شروع کر دی جائے گی،جبکہ مسجد میں بھی باقاعدہ نمازِ تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔کیا یہ طریقہ شرعا درست ہے؟یا جو جائز طریقہ ہے،وہ بتا دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ہرعاقل،بالغ اور بغیر مشقت  مسجد میں پہنچنے پر قادر مسلمان مرد پر مسجد کی پہلی جماعت  واجب ہے،جسے بلاعذر شرعی چھوڑنے والا فاسق اور گنہگار ہےاور چونکہ دریافت کی گئی صورت میں مسجدسےدومنٹ کی مسافت پر رہنے والے عاقل،بالغ مرد حضرات بغیرمشقت کے آرام سے مسجد میں پہنچ سکتے ہیں،ان پر مسجد کی جماعت واجب ہے،اسے ترک کر کے اپنے گھر نمازِ عشاء کی جماعت کروانا،ناجائز وگناہ ہے۔

   البتہ مسجدمیں نمازِ تراویح باجماعت اداکرنا واجب نہیں،بلکہ سنت مؤ کدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگراہل محلہ میں سے چندافراد مسجدمیں باجماعت نمازِتراویح اداکرلیں، توبقیہ سب سے مسجدکی جماعت ساقط ہوجائے گی اوراگرکسی نے بھی مسجدمیں باجماعت تراویح ادا نہ کی، توسب خلافِ سنت اوراساءت (بُرے عمل)کے مرتکب ہوں گے،لہذااگر یہ حضرات مسجد میں نمازِ عشاء  باجماعت اداکرتے ہیں ،لیکن مسجد میں ہونے والی نمازِ تراویح کی جماعت میں شرکت نہیں کرتے،بلکہ گھر جا کرنمازِ تراویح باجماعت ادا کرتےہیں،تو اب وہ گنہگار یا خلافِ سنت واساءت کے مرتکب نہیں ہوں گے ،کیونکہ اہل محلہ میں سے بعض افراد کے مسجد میں نمازِ تراویح باجماعت ادا کرنے کی بنا پر بقیہ افرادسے جماعت ساقط ہوجاتی ہے۔

   جماعت سے نماز پڑھنے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :﴿وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡامَعَ الرّٰکِعِیۡنَترجمہ :اور نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(القرآن،سورۃالبقرۃ،پارہ1،آیت43)

   مذکورہ  بالا  آیت  کے تحت تفسیرات  احمدیہ  میں  ہے: ” فالجماعۃ         فی    الصلوۃ الخمس واجبۃبھذہ الایۃ“ترجمہ:یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہےکہ پانچوں نمازوں میں جماعت واجب ہے۔(تفسیرات احمدیہ،تحت ھذہ الایۃ،ص14،مطبوعہ لاھور)

   مسجدکی جماعت میں حاضرنہ ہونےوالوں کےبارےمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایا:”لقدهممت ان آمرالمؤذن فيقيم ثم آمررجلايؤم الناس ثم اخذشعلامن نارفاحرق على من لايخرج الى الصلاة بعد“ ترجمہ : میراجی چاہتاہےکہ مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دوں اورپھرکسی کوحکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائےاورمیں آگ کی مشعل لوں اورجو(اذان ہوجانےکےبعدبھی)نماز کےلیےنہیں نکلےان (کےگھروں ) کوجلادوں۔(صحیح البخاری،کتاب الاذان ،باب فضل العشاء،ج1،ص89،مطبوعہ کراچی)

   سنن ابو داؤد میں ہے:” قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لقد هممت أن آمر فتيتي فيجمعوا حزما من حطب، ثم آتي قوما يصلون في بيوتهم ليست بهم علة فأحرقها عليهم “ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اپنے جوانوں کو لکڑیوں کے گٹھر جمع کرنے کا حکم دوں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جو بغیر کسی عذر کے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتے ہیں، جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت آگ لگا دوں۔(سنن ابو داؤد،ج01،ص150،مطبوعہ المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   سنن نسائی میں ہے:” ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية، قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة “ترجمہ: جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد  ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں، تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیونکہ  بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے، جو اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔(سنن نسائی،ج01،ص106،مطبوعہ مکتبۃ المطبوعات الاسلامیہ،بیروت)

   سنن دارقطنی میں ہے:” قال رسول اللہ       صلى اللہ  عليه وسلم   :’’ لاصلاة   لجارالمسجدالافی المسجد“ ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: مسجدکےپڑوسی کی نمازنہیں ہوتی ،مگرمسجد میں۔(سنن دارقطنی،ج2،ص292،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

   مسجدکی جماعت کےواجب ہونے کےبارےمیں تبین الحقائق،بحرالرائق،فتاوی ہندیہ اور بدائع الصنائع میں ہے، واللفظ للآخر :”فالجماعة انماتجب على الرجال العاقلين الاحرارالقادرين عليهامن غير حرج“ترجمہ:نمازکی جماعت ان مردوں پرواجب ہےجوعاقل ،آزاداوربغیرکسی حرج کےمسجدمیں پہنچنےپرقادرہوں۔(بد ائع الصنائع،کتاب الصلاۃ، ج1،ص384،مطبوعہ کوئٹہ)

   اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمن لکھتے ہیں:”پانچوں وقت کی نمازمسجدمیں جماعت کے ساتھ واجب ہے،ایک وقت کابھی بلاعذرترک گناہ ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج7،ص194،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   ایک اورمقام پرلکھتےہیں:” فرائض بےعذرقوی مقبول اگرحجرہ میں پڑھے اورمسجدمیں نہ آئےگنہگارہے،چندبارایساہو،توفاسق مردود الشہادۃ ہوگا۔“(فتاوی رضویہ،ج7،ص393،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   جماعتِ تراویح کے سنت کفایہ ہونے کے بارے میں ھدایہ میں ہے:’’ والسنۃ فیھا الجماعۃ لکن علی وجہ الکفایۃ حتی لو امتنع اھل المسجد عن اقامتھا کانوا مسیئین ولو اقامھا البعض فالمتخلف عن الجماعۃ تارک للفضیلۃ‘‘  ترجمہ: اورتراویح باجماعت اداکرناسنتِ کفایہ ہے حتی کہ اگر(تمام)اہل مسجدنے جماعت ِ تراویح کوترک کردیا،توسب مرتکب ِاساء ت ہوں گے اوراگربعض نے جماعت قائم کی اوربعض جماعت سے پیچھے رہ گئے ،توپیچھے رہ جانے والے مسجدکی جماعت کی فضیلت کے تارک ہوئے۔ ( ھدایہ ،کتاب الصلاۃ،فصل فی قیام رمضان،ج01،ص157،مطبوعہ لاھور)

   الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:’’والسنۃ اقامتھابجماعۃ لکن علی الکفایۃ،فلوترکھاأھل المسجدأساؤوا،وان تخلف عن الجماعۃ أفرادوصلوافی منازلھم لم یکونوامسیئین‘‘ترجمہ:تراویح کی جماعت قائم کرناسنت ہے، لیکن کفایہ،پس اگر(تمام)اہل محلہ نے جماعت کوترک کردیا،تواساء ت کاارتکاب کیااوراگرچندافرادجماعت سے پیچھے رہ گئے اوراپنے گھرمیں نمازپڑھی،تووہ اساء ت کے مرتکب نہیں ہوں گے۔(اختیارلتعلیل المختار،کتاب الصلاۃ ،ج01،ص94،مطبوعہ دارالمعرفہ،بیروت)

   غنیۃ المستملی میں ہے:’’ان الجماعۃ فیھاسنۃ علی سبیل الکفایۃ،حتی لوترک اھل محلۃ کلھم الجماعۃوصلوافی بیوتھم فقدترکواالسنۃ وقداساؤوافی ذلک وان اقیمت التراویح فی المسجدبالجماعۃ وتخلف عنھارجل من افرادالناس وصلی فی بیتہ فقدترک الفضیلۃ لاالسنۃ‘‘ترجمہ:بیشک تروایح کی جماعت سنتِ کفایہ ہے،یہاں تک کہ اگرتمام اہل محلہ نے جماعت ترک کردی اوراپنے اپنے گھروں میں نمازپڑھی،توانہوں نے سنت کوترک کردیااوراساء ت یعنی برائی کے مرتکب ہوئے اوراگرمسجدمیں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھی گئی اورلوگوں میں سے کوئی شخص پیچھے رہ گیااوراس نے اپنے گھرمیں ہی نمازپڑھ لی،تواس نے مسجد کی جماعت کی فضیلت کوترک کیا،نہ کہ سنت کو۔(غنیۃ المستملی،صلوۃ التراویح،ص348،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم