Namaz e Eid Ki Zaid Takbeerein Bhool Kar Ruku Mein Chale Gaye, To Kya Hukum Hai?

نمازِعید کی زائد تکبیریں بھول کر رکوع میں چلے گئے،توکیا حکم ہے ؟

مجیب:ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

مصدق:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Gul-2723

تاریخ اجراء:27جمادی الاولی1444ھ/22دسمبر 2220ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ تکبیرات عیدین کے معاملے میں بہارشریعت میں ایک مقام پر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ:”امام تکبیرات عیدین بھول گیا اوررکوع میں چلا گیا، تو لوٹ آئے۔“(بھارشریعت، جلد1،حصہ4،صفحہ714،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)جبکہ دوسرے مقام پریہ بیان فرمایا ہے کہ :”امام تکبیرکہنا بھول گیا اوررکوع میں چلا گیا، تو قیام کی طرف نہ لوٹے،نہ رکوع میں تکبیرکہے۔“ان دونوں میں کون سا مسئلہ راجح ہے ؟ کس پرعمل کیا جائے ؟ وضاحت فرما دیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عیدین کی نماز میں اگرزائد تکبیریں بھول کررکوع میں چلے گئے، تو اب واپس نہیں لوٹیں گے،یہی مسئلہ راجح ہے۔اس کی وجوہ ترجیح درج ذیل ہیں ۔

   اولاً:یہی مسئلہ ظاہرالروایہ ہے۔واپس لوٹنے کا مسئلہ نوادرالروایہ سے ثابت ہے،  اس لیے اس کے مقابلے میں ظاہرالروایہ کو ترجیح دی جائے گی۔

   ثانیاً:دعائے قنوت کا مسئلہ اس کی نظیر ہے کہ دعائے قنوت بھی واجب ہے اور تکبیرات عیدین بھی واجب ہیں ،جس طرح دعائے قنوت بھول کررکوع میں چلے گئے،تو واپس لوٹنے کا حکم نہیں ہے ،اسی طرح تکبیرات کے لیےبھی واپس لوٹنے کا حکم نہیں ہوگا۔یہاں قراءت والے مسئلے پرقیاس نہیں کیا جائے گا کہ سورۃ الفاتحہ کے بعد سورت ملانا بھول کررکوع میں چلے گئے، تو اب واپس آنے کا حکم ہے۔اس مسئلے پرقیاس اس لیے نہیں کیا جائے گا،کیونکہ سورت ملانا اگرچہ واجب ہے،مگرجب واپس آ کرسورت ملائیں گے، تو یہ سب قراءت ،فرض کے درجے میں ہوجائے گی،تو یہاں فرض (یعنی رکوع )سے فرض(یعنی قراءت) کی طرف لوٹنا پایا جائے گا ،جبکہ تکبیراتِ عیدین اگررکوع سے واپس آکرکہہ  لیں توبھی یہ واجب ہی رہیں گی، فرض کے درجے میں نہیں ہوں گی ۔اس لیے فرض (یعنی رکوع )سے واجب(یعنی تکبیرات) کی طرف لوٹنے کا حکم نہیں دیا جائےگا۔

   ثالثا:خودصاحب بہارشریعت،صدرالشریعہ بدرالطریقہ علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ نے فتاوی امجدیہ میں ظاہرالروایہ ہونے کی وجہ سے اسی پرفتوی دیا ہے کہ تکبیرات بھول گئے ،تو رکوع سے واپس نہیں لوٹیں گے۔

   واپس نہ لوٹنے کا حکم ظاہرالروایہ اور لوٹنے کا حکم نوادرالروایہ  کا ہے۔المحیط الرضوی میں امام رضی الدین السرخسی رحمہ اللہ نے  فرمایا : ” ولو رکع الامام قبل ان یکبر،فانہ لا یکبر فی الرکوع لانہ لیس لرکوعہ حکم القیام ،لانہ سبقہ حقیقۃ القیام ولا یعود الی القیام فیکبر فی ظاھرالروایہ لما فیہ من رفض الرکن وھو الرکوع لما ھو واجب وفی روایۃ النوادر یعود ویکبر وقد انتقض رکوعہ ھکذا ذکرہ الکرخی“ ترجمہ:اگرامام نے تکبیرات کہنے سے پہلے رکوع کرلیا،تو وہ رکوع میں تکبیریں نہیں کہے گا ،کیونکہ رکوع کا حکم یہاں قیام والا نہیں ہوگا ،اس لیے کہ اس سے پہلے حقیقتاً قیام گزرچکا ہے،اورظاہرالروایہ کے مطابق تکبیرات کہنے کے لیے  واپس قیام کی طرف بھی نہیں لوٹے گا،کیونکہ اس میں رکوع کے رکن کو واجب کے لیے ختم کرنا پایا جائے گا۔نوادر کی روایت یہ ہے کہ واپس لوٹے گا اورتکبیریں کہے گا اورجو پہلے رکوع کرچکا ہے، وہ بھی ختم ہوجائے گا۔اسی طرح امام کرخی رحمہ اللہ نے ذکرفرمایا ہے۔ (المحیط الرضوی، جلد1،صفحہ416،مطبوعہ بیروت)

   بحرالرائق میں ہے:”لو ركع الامام قبل أن يكبر فان الامام لا يكبر في الركوع، ولا يعود الى القيام ليكبر في ظاهر الرواية “ترجمہ: اگرامام نے تکبیرات کہنے سے پہلے ہی رکوع کرلیا، تو ظاہرالروایہ کے مطابق امام رکوع میں تکبیریں نہیں کہے گا اور تکبیریں کہنے کے لیے  قیام کی طرف بھی نہیں لوٹے گا ۔(بحرالرائق، جلد2،صفحہ 282،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کے تحت منحۃ الخالق میں ہے:”وما هنا صرح بمثله ابن أمير حاج فی شرح المنية حيث قال: وان تذكر فی الركوع ففی ظاهر الرواية لا يكبر ويمضی على صلاته، وعلى ما ذكره الكرخی ومشى عليه صاحب البدائع، وهو رواية النوادر يعود الى القيام ويكبر ويعيد الركوع “ترجمہ: جو یہاں مذکور ہے اسی کی تصریح علامہ ابن امیرحاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرح منیہ میں ذکر کی ہے،انہوں نے فرمایا : ”اگررکوع میں یاد آیا ،تو ظاہرالروایہ میں یہ ہے کہ تکبیر نہیں کہے گا اور اپنی نماز جاری رکھے گا ۔ “امام کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو ذکرکیا اور اسی پر صاحب بدائع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عمل کیا، وہ نوادر کی روایت ہے،اس کے مطابق امام قیام کی طرف لوٹے گا اور تکبیرات کہے گا، پھر رکوع بھی دوبارہ کرے گا۔ (منحۃ الخالق، جلد2،صفحہ 282،مطبوعہ کوئٹہ)

   ردالمحتار میں اسی مسئلے کے تحت فرمایا:”حیث ثبت ظاھرالروایہ لایعدل عنہ“ ترجمہ:جب ظاہرالروایہ ثابت ہوگئی، تو اب اس سے عدول نہیں کیا جائے گا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،جلد3،صفحہ65،مطبوعہ کوئٹہ)

   قنوت وقراءت میں فرق ہے۔چنانچہ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے:” (ولو نسيه) أي القنوت (ثم تذكره فی الركوع لا يقنت) فيه لفوات محله (ولا يعود الى القيام) فی الأصح لأن فيه رفض الفرض للواجب “ ترجمہ:اگرقنوت پڑھنا بھول گیا پھررکوع میں یاد آیا،تو رکوع میں قنوت نہیں پڑھے گا ،کیونکہ یہ قنوت کا محل نہیں ہے اور اصح قول کے مطابق قیام کی طرف بھی واپس نہیں آئے گا، کیونکہ اس میں واجب کے لیے فرض کو چھوڑنا پایا جاتا ہے۔(در مختار مع ردالمحتار، جلد2،صفحہ538،مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی کے تحت ردالمحتار میں فرمایا:” بخلاف ما لو تذكر الفاتحة أو السورة حيث يعود وينتقض ركوعه لأن بعوده صارت قراءة الكل فرضا “ترجمہ:برخلاف اس مسئلہ کے کہ اگرفاتحہ یا سورت کا نہ پڑھنا رکوع میں یاد آیا، تو لوٹے گا اور اس کا پہلا رکوع بھی ختم ہوجائے گا ،کیونکہ جب یہ واپس لوٹا ،تو سورت کا پڑھنا فرض قراءت کے حکم میں ہوگیا۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،جلد2،صفحہ540،مطبوعہ کوئٹہ)

   عوام کی نماز میں تخلیط کی وجہ سے بھی لوٹنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ جدالممتار میں درمختار کے اسی مسئلہ کے تحت الفاظ ” ولا يعود الى القيام “کے تحت فرمایا”اقول :ویجب العمل علیھا تحرزا عن التخلیط علی العوام“ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ اس پر عمل کرنا واجب ہے تاکہ عوام میں تخلیط پیدا نہ ہو۔(جدالممتار ،جلد3،صفحہ 630،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوی امجدیہ میں ہے:’’امام رکعت ثانیہ میں تکبیرات زوائد بھول گیا اوررکوع میں اسے یاد آیا ،جب بھی اس کے لیے  قیام کی طرف عود کرنے کی اجازت نہیں۔یہی ظاہرالروایہ ہے۔(فتاوی امجدیہ ،جلد1،صفحہ306،مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم