Namaz e Eid Ka Waqt Khatam Kab Hota Hai

 

نمازِ عید کا وقت ختم کب ہوتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13404

تاریخ اجراء:07ذی الحجۃ الحرام1445 ھ/14جون  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ نمازِ عید کا وقت ختم کب ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازِ عید کا وقت سورج کے نیزے کی مقدار بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے جو کہ عام طور سے سورج نکلنے کے 15 سے 20 منٹ   بعد آتا ہے۔ اور زوال یعنی ضحوہ کبرٰی تک باقی رہتا ہے، لہذا اگر نمازِ عید کا سلام پھیرنے سے پہلے پہلے زوال کا وقت آجائے تو نمازِ عید جاتی رہے گی۔

   چنانچہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(ووقتها من الارتفاع) قدر رمح فلا تصح قبله بل تكون نفلا محرما (إلى الزوال) بإسقاط الغاية (فلو زالت الشمس وهو في أثنائها فسدت) كما في الجمعة۔“ یعنی نمازِ عید کا وقت سورج کے نیزے کی مقدار بلند ہونے سے شروع ہوتا ہے، لہذا اس سے پہلے عید کی  نماز درست نہیں بلکہ وہ ممنوع نفل نماز ہوگی، اور نمازِ عید کا وقت زوال تک باقی رہتا ہے،  یہاں ماتن نے انتہاء کو بیان کیا گیا ہے۔ لہذا  اگر نمازِ عید کے دوران سورج ڈھل جائے تو  نماز فاسد ہوجائے گی، جیسا کہ نماز جمعہ کا حکم  ہے۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ،ج03،ص61-60 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک ہے، مگر عیدالفطر میں دیر کرنا اور عيداضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے کے پہلے زوال ہوگیا ہو تو نماز جاتی رہی۔ زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے، جس کا بیان باب الاوقات میں گزرا۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 781، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم