Nabi Kareem ﷺ Sajde Mein Kaun Si Duain Parhte The?

نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام سجدے میں کون سی دعائیں پڑھتے تھے؟

مجیب:مفتی محمد حسان عطاری

فتوی نمبر: WAT-3061

تاریخ اجراء:04ربیع الاول1446ھ/07ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ  کے  بارے میں کہ  آقائے دو جہاں  صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں کون کون سی دعائیں پڑھا کرتے تھے ؟دلائل کی روشنی میں تحریری فتوی عطا فرما دیجئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    احادیث   میں حضور  سید عالم  ، خاتم النبیین  صلی اللہ علیہ و علی آلہ   وسلم سے    سجدے میں  مختلف قسم کی دعائیں  پڑھنا  منقول  ہیں ۔ اور جو بھی  دعائیں احادیث میں بیان کی  گئی ہیں،علمائے کرام نے فرمایا  کہ  یہ احادیث نوافل  پر محمول  ہیں یعنی تنہانوافل پڑھنے والایہ دعائیں پڑھے توکوئی حرج نہیں ۔

سجدے کی دعائیں  درج  ذیل ہیں :

   (1)صحیح مسلم  میں امام مسلم بن حجاج  قشیری  علیہ الرحمہ حدیث پاک   لکھتے ہیں :’’ عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول: في سجوده اللهم اغفر لي ذنبي كله دقه، وجله، وأوله وآخره وعلانيته وسره‘‘  ترجمہ : حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله تعالی  علیہ وآلہ  وسلم اپنے سجدہ میں(بطور تعلیم ِامت) کہتے تھے" خدایا میرے سارے گناہ بخش دے چھوٹے ،بڑے ،اگلے ،پچھلے، کھلے ،چھپے۔             (صحیح  مسلم ،رقم الحدیث 483،ج 1 ، ص350 ، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   (2)مشکاۃ المصابیح میں  حدیث پاک منقول ہے :’’عن عائشة رضي الله عنها قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من الفراش فالتمسته فوقعت يدي على بطن قدميه وهو في المسجد وهما منصوبتان وهو يقول: اللهم إني أعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك وأعوذ بك منك لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك ‘‘ ترجمہ : روایت ہےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  سے فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نےرسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا  ،میں نے ٹٹولا تو میرا ہاتھ آپ کے تلوؤں پر پڑا  اس وقت  آپ مسجد میں تھے اورتلوےکھڑے ہوئے تھے اور آپ کہہ رہے تھے"مولا میں تیری رضا کی تیری ناراضگی سے اور تیری معافی کی تیری سزا سے پناہ لیتا ہوں، میں تیری تعریف کی طاقت نہیں رکھتا تو ویسا ہی ہے جیسےتو نےخود اپنی تعریف کی۔ (مشکاۃ المصابیح،رقم الحدیث 893،ج 1،ص 281، المكتب الإسلامي ، بيروت)

   (3)صحیح مسلم  میں  ہے :’’ عن علي بن أبي طالب، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه كان ۔۔۔وإذا سجد، قال: اللهم لك سجدت، وبك آمنت، ولك أسلمت، سجد وجهي للذي خلقه، وصوره، وشق سمعه وبصره، تبارك الله أحسن الخالقين‘‘ ترجمہ : حضرت علی  بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  جب سجدہ کرتے تو کہتے” الہٰی تیرے لیے میں نے سجدہ کیا تجھ پر ایمان لایا تیرا مطیع ہوا میری ذات نے اسے سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اسے صورت بخشی اور اس کے کان اور آنکھیں بنائیں ،برکت والا ہے  الله  بہترین پیدا کرنے والا۔ (الصحیح المسلم ، ج 1 ، ص534 ، حدیث 771 ،   دار احیاء التراث العربی،بیروت )

     رہا ان دعاؤں کا محمل تو اس کے متعلق در مختار  میں علامہ  علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’  وليس بينهما ذكر مسنون، وكذاليس بعد رفعه من الركوع دعاء، وكذا لا يأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح على المذهب  وما ورد. محمول على النفل‘‘ ترجمہ :  اور دو سجدوں کے  درمیان   کوئی ذکر مسنون  نہیں ہے  ،اسی طرح  رکوع سے اٹھنے کے بعد (قومہ  میں )  کوئی دعا سنت نہیں  ، اسی طرح  رکوع و سجود  میں  مذہب صحیح کے مطابق  تسبیح  کے علاوہ  کوئی دعا  پڑھنا سنت نہیں ہے  اور جو احادیث   میں دعائیں  وارد ہوئی ہیں  وہ   نفل پر محمول ہیں  ۔ 

      اس کے تحت  علامہ  ابن عابدین شامی  علیہ الرحمہ  دعائیں  ذکر کرنے کے  بعد فرماتے ہیں :’’  الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع والسجود‘‘ ترجمہ :   نفل پر محمول  کرنے کی  صراحت   مشائخ  کرام  نے  رکوع وسجود کے بارے میں آنے والی حدیثوں  کی   فرمائی ہے۔( الدر المختار  مع رد المحتار  ، ج 1 ، کتاب الصلاۃ ، ص 505،506،دار الفکر،بیروت)

    دوسجدوں کے درمیان دعاپڑھنے کے متعلق امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہواتوآپ علیہ الرحمۃ نے ارشادفرمایا:

                     "اللھم اغفرلی کہناامام ومقتدی ومنفردسب کومستحب ہے اورزیادہ طویل دعاسب کومکروہ ہاں منفردکونوافل میں مضائقہ نہیں ۔" (فتاوی رضویہ،ج06،ص 182،رضافاونڈیشن،لاہور)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم