Na Baligh Ki Namaz Fasid Ho Jaye To Kya Wo Dobara Parhe Ga?

نابالغ کی نماز فاسد ہو جائے، تو کیا وہ دوبارہ پڑھے گا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9082

تاریخ اجراء:30 صفر المظفر1446ھ/05ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی قراءت میں غلطی کی وجہ سے نمازیں فاسد ہو گئیں،اسے معلوم ہوا تو اس نے اصلاح کی اور وہ نمازیں لوٹا لیں۔ لیکن اس نے نابالغی کی حالت میں جو نمازیں ادا کیں، ان میں بھی یہی غلطی کرتا تھا، تو کیا وہ نابالغی کی حالت میں پڑھی گئی نمازیں بھی دوبارہ پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگرکسی شخص کی نابالغی کی حالت میں قراءت میں غلطی کی وجہ سے نمازیں فاسدہو گئیں اور اب وہ بالغ ہوچکا ہے،تو نابالغی کی حالت میں پڑھی گئی نمازیں دوبارہ پڑھنا اس پر لازم   نہیں۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے نمازعاقل،بالغ جواحکام شرع کا مکلف ہو،اُس پرفرض ہوتی ہے۔نابالغ بچہ چونکہ احکام شرع کا مکلف نہیں،تواس پرنمازبھی فرض نہیں،اگریہ نابالغی کی حالت میں فرض کی نیت سے نمازپڑھے،تووہ نفل کہلاتی ہے( اوراسے  ثواب ملتا ہے)اورفقہائے کرام کی تصریحات کےمطابق نابالغ اگرنفل شروع کرکےفاسدکردے،توبالاجماع اُس پران نوافل کی قضالازم نہیں،البتہ نابالغ نمازشروع کرکے فاسد کردے تو اُسے نماز  پڑھنے کا کہاجائےگا،لیکن  نابالغ پر نماز کا یہ  حکم وجوبی نہیں، بلکہ تعلیم یعنی نماز کی اہمیت  سکھانے کے طور  پرہے، لہٰذا نابالغی کی حالت  میں  فاسد ہونے والی نمازیں بالغ ہونے کے بعد دوبارہ پڑھنا لازم نہیں۔

   نابالغ احکام شرع کا مکلف نہیں،جیساکہ علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ  (سالِ وفات:616ھ /1219ء) لکھتےہیں:’’الصبي فإنما يتوجه عليه الخطاب بعد البلوغ“ترجمہ:بچے کے  بالغ ہونے کے بعدشریعت کا خطاب   اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔(المحیط البرھانی، جلد8،   صفحہ100، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

   نابالغ کی نمازنفل ہی کہلاتی ہے،اگرچہ فرض کی نیت ہو،جیساکہ شیخ الاسلام  ابو الحسن على بن حسین السغدى حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ(سالِ وفات : 461ھ /1068ء)  لکھتے ہیں:’’صلاة الصبيان كلها نقل لانه لا يكون من الصبيان فريضة ولا سنة وتكون منهم نافلة“ ترجمہ:بچوں  کی تمام نمازیں  (بالغ کی نماز کی )نقل  ہیں،  کیونکہ بچوں  پر   نہ ہی کوئی نماز فرض ہے اور نہ ہی سنت،البتہ  بچوں کی پڑھی جانے والی نمازیں   نفل کہلاتی ہیں۔(النتف فی الفتاوی ،جلد 1،صفحہ 112،113 ،مطبوعہ مؤسسة الرسالہ، بيروت)

   علامہ طَحْطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:’’صلاة الصبي ولو نوى الفرض نفل“یعنی بچہ اگرچہ فرض کی نیت سے  ہی نماز کیوں نہ شروع  کرے، وہ نفل ہی کہلاتی ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ288، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)

   اورنابالغ نفل شروع کرکے فاسد کردے،تو بالاجماع اس پر قضالازم   نہیں،جیساکہ امام اکمل الدین محمد بن محمد رومی البابرتی رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:786ھ) لکھتے ہیں:’’نفل الصبي دون نفل البالغ حيث لا يلزمه القضاء بالإفساد بالإجماع“ترجمہ:بچے کے نفل  پڑھنے کا حکم   بالغ کے نفل پڑھنےجیسا نہیں   اس حیثیت سے کہ بچے  کے نفل فاسد کرنےکی وجہ سے بالاجماع اس پر ان  نوافل کی قضا لازم نہیں ہوگی۔(عنایہ شرح ھدایہ،جلد 1، صفحہ357، مطبوعہ دار الفکر،بیروت)

   علامہ ابن نجیم مصری حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ(سالِ وفات:970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’نفل الصبي ليس بمضمون حتى لا يجب القضاء عليه بالإفساد فيكون نفل الصبي دون نفل البالغ“ ترجمہ:بچے کے نفل پر پکڑ نہیں،یہاں تک  کہ اس کے نفل فاسد کرنے  کی  وجہ سے اُس پر قضا واجب نہیں،لہذا بچے کے نفل کا حکم بالغ کے نفل کی طرح نہیں۔(بحر الرائق شرح کنز الدقائق،کتاب  الصلوۃ  ، جلد1،صفحہ381،مطبوعہ دار الكتاب الإسلامي)

   بچے کی نمازفاسدہوجائے،تواس کودوبارہ پڑھنےکاکہاجائےگا،جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقیرحمۃا للہ علیہ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’الصبی اذا افسد  صومہ   لایقضی لانہ یلحقہ فی ذلک مشقۃ  بخلاف الصلاۃ فانہ یومر بالاعادہ لانہ لایلحقہ مشقۃ“ ترجمہ :بچہ جب   اپنے روزے کو فاسد کردے،تو اس روزے کی قضا کاحکم نہیں دیا جائے گا ،کیونکہ روزے رکھنے میں بچے کو مشقت  کا سامنا کرنا پڑے گا، البتہ بچہ نماز شروع کرکے فاسد کردے،تو اس نماز کو دوبارہ پڑھنے  کا اسے کہاجائے  گا،  کیونکہ  نماز کا اعادہ کرنے میں مشقت نہیں  ہے۔(ردالمحتار  مع الدرالمختار، جلد3، صفحہ442، مطبوعہ کوئٹہ)

   مذکورہ   جزئیے میں  یہ بیان کیا گیا کہ نابالغ  نماز شروع کرکے فاسدکر دے،تو  دوبارہ پڑھنے کا کہا جائے گا، لیکن یہ حکم وجوبی نہیں،بلکہ بچے کی عادت بنانے کے  طور  پرہے،جیسے اگلی سطور میں آنے والی  عبارات ِفقہا سے واضح ہے۔

   بچے کونماز کاحکم اس کی عادت بنانے کے طور پر ہے،جیساکہ امام ابو بکر احمد  بن علی  جَصَّاص  رازی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:370ھ/980ء) لکھتے ہیں:’’لا خلاف بين الأمة أنه لا صوم عليه، ولا حج قبل البلوغ، فعلمنا أن أمره بالصلوات قبل البلوغ على وجه التعليم، وليمرن عليها ويعتادها“ ترجمہ :علمائے امت کے درمیان   اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں  کہ  بچےپر  بالغ ہونے سے پہلے روزہ اور حج لازم نہیں،تو پس ہم نے جان لیا کہ بالغ ہونے سے پہلے  بچے کو نماز کا حکم صرف تعلیم یعنی سکھانے کے طور پر  ہے اوراس طور پر   کہ       گھر والے    بچے کو نماز کا حکم دیں اور اس کی نماز پڑھنے پر عادت بنائیں۔(شرح مختصر طحاوی للجصاص  ،جلد 1 ،صفحہ 723 ،مطبوعہ دار البشائر الإسلاميہ)

   شمس الائمہ، امام سرخسی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:483ھ/1090ء) لکھتے ہیں:’’صلاة الصبي تخلق واعتياد أو نافلة“ترجمہ:بچے کی نمازتو(نماز) جیسی صورت اختیار کرنے اور بچے کی عادت بنانے کے طور پر ہوگی یا نفل کہلائے گی۔(المبسوط للسرخسی، جلد1، صفحہ180، مطبوعہ دارالمعرفہ، بیروت، لبنان)

   اور جہاں بچے کو نماز کا حکم ہے، تو یہ امر وجوبی نہیں، جیساکہ علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’هذا الأمر للاِرشاد والتأديب، وليس للوجوب، إذ الصبي مرفوع عنه القلم، فلا يكلف بالأوامر والنواهي“یعنی  بچے کو نماز کا حکم   یہ بچے کی رہنمائی اور اس کو نماز کا ادب سیکھانے  کے طور پر  ہے،یہ حکم وجوبی نہیں،کیونکہ بچےسے شریعت کا قلم  اٹھا لیا گیا ہے، لہذا بچے کو نیک اعمال بجالانے  اور برے اعمال سے بچنے  کا مکلف  نہیں کیا گیا۔(شرح سنن ابوداؤد للعینی،جلد2،صفحہ414،مطبوعہ   ریاض)

   معتمد قول کے مطابق بچے کی عبادات پرثواب کا ترتب ہوتا ہے،جیساکہ الاشباہ والنظائرمیں ہے:’’وتصح عباداته وان لم تجب عليه واختلفوا  في ثوابها والمعتمد انه له وللمعلم ثواب التعليم وكذا جميع حسناته‘‘ ترجمہ:بچےپراگرچہ عبادات واجب نہیں،لیکن(اگر وہ عبادات کرتاہے،تو)اس کی  عبادات درست ہیں اور اسے عبادات کا ثواب ملنے یا نہ ملنے کےبارےمیں اختلاف ہےاورمعتمد قول یہ ہے کہ اسے ثواب ملتا ہےاورمعلم کوبھی تعلیم کا ثواب ملے گا،یہی حکم بچے کی تمام نیکیوں کاہے۔(الاشباہ والنظائر،صفحہ264،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم