Mustamal Pani Se Wazu Karke Namaz Parhli To Kya Hukum Hai?

مستعمل پانی سے وضو کرکے نماز پڑھی لی ہو  تو کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13420

تاریخ اجراء: 21ذی الحجۃ الحرام1445 ھ/28جون  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو نماز کی ادائیگی کے بعد معلوم ہوا کہ اُس نے تو مستعمل پانی سے وضو کرکے نماز ادا کی ہے، تو کیا اس صورت میں زید کو وہ نماز دوبارہ سے ادا کرنا ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید  نے  مستعمل پانی سے  وضو کرکے  جو فرض و واجب  نمازیں پڑھیں ان کا اعادہ کرے ، کیونکہ مستعمل  پانی سے وضو اور غسل نہیں ہوسکتا ۔  اگرچہ یہ پانی پاک ہوتا ہے لیکن نجاستِ حکمیہ کو پاک کرنے والا نہیں ہوتا، لہذا  پوچھی گئی صورت میں مستعمل پانی سے وضو کرنے کے سبب چونکہ زید کو طہارت حاصل ہی نہیں ہوئی تھی،  اور طہارت نماز کی بنیادی شرط ہے اس کے بغیر اصلاً ہی نماز ادا نہیں ہوتی ۔

   مستعمل پانی نجاستِ حکمیہ کو پاک کرنے والا نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، محیطِ برہانی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”و النظم للاول“  اتفق أصحابنا رحمهم الله أن الماء المستعمل ليس بطهور حتى لا يجوز التوضؤ به واختلفوا في طهارته قال محمد رحمه الله : هو طاهر وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله وعليه الفتوی۔ كذا في المحيط۔ “یعنی ہمارے اصحاب علیہم الرحمہ کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ مستعمل پانی نجاستِ حکمی کو پاک نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس پانی سے وضو کرنا ، جائز نہیں۔ البتہ فقہائے کرام اس پانی کی پاکی میں اختلاف رکھتے ہیں ۔ امام محمد علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ وہ پاک ہے اور یہی روایت امام اعظم علیہ الرحمہ سے بھی مروی ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، جیسا کہ محیط میں مذکور ہے۔(فتاوٰی عالمگیری،کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 22،  مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:’’ماء مستعمل طاہر ہے،  مطہر نہیں،  اُس سے وضو نہ ہوگا۔“ (فتاوٰی رضویہ ،ج02، ص122، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   طہارت نماز کی بنیادی شرط ہے، بغیر طہارت کے اصلاً نماز ادا نہیں ہوتی۔ جیسا کہ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں ہے:”الحدث فی الشرع ما یوجب الغسل او الوضوء۔۔۔۔اما طھارۃ من الحدث قدمھا لکونھا اھم الشروط و اکدھا حتی انہ لا تسقط بحال و لا یجوز الصلوۃ بدونھا اصلاً۔یعنی شریعت میں حدث سے مراد وہ چیز ہے جو غسل یا وضو کو واجب کردے۔۔۔۔بہر حال حدث سے پاکی حاصل ہونے کو ہم نے دیگر شرائط پر مقدم رکھا ہے کیونکہ یہ شرط دیگر شرائط سے اہم اور زیادہ تاکید والی ہے یہاں تک کہ یہ کسی بھی حالت میں ساقط نہیں ہوتی اور بغیر طہارت کے نماز اصلاً ہی جائز نہیں ہوتی۔(غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ، شرائط الصلوۃ و فرائضھا، ص14، مطبوعہ ترکی، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” نماز کے لیے طہارت ایسی ضروری چیزہے کہ بے اس کے نماز ہوتی ہی نہیں۔“ (بہار شریعت،ج01، ص282، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم