Musafir Teesri Rakat Me Muqeem Imam Ki Iqtida Kere To Kitni Rakat Ada Kere Ga ?

 

مسافر تیسری رکعت میں مقیم امام کی اقتداء کرے تو کتنی رکعات ادا کرے گا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13494

تاریخ اجراء:25صفر المظفر1446 ھ/31اگست  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  مسافر مقتدی نمازِ عصر کی تیسری رکعت میں مقیم امام کے ساتھ شامل ہوا ہو، تو کیا وہ مقتدی امام کے ساتھ دو رکعت پر ہی سلام پھیردے گا یا پھر چار رکعات پوری ادا کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسافر جب وقتی  نمازمیں مقیم امام کی اقتداء کرے توامام کی اتباع میں مسافرپر بھی چار رکعات ادا کرنا لازم ہے، لہٰذا  پوچھی گئی صورت میں مسافر مقتدی نمازِ عصر کی پوری چار رکعات ادا کرے گا یعنی امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہ جانے والی بقیہ دو رکعات بھی ادا کرے گا۔

   مسافر، مقیم امام کی اقتداء میں مکمل نماز پڑھے گا۔ جیسا کہ امدا د الفتاح شرح نور الایضاح میں ہے:  ”(وان اقتدی مسافر بمقیم) یصلی رباعیۃ ولو فی التشھد الاخیر(فی الوقت صح) اقتداءہ (واتمھا اربعا) وھکذا روی عن ابن عباس وابن عمر رضی اللہ عنہم ،ولانہ تبع لامامہ فیتغیر فرضہ الی اربع کما یتغیر نیۃ الاقامۃ  لاتصال المغیر بالسبب وھو الوقت فیتمھا  اربعاً لو خرج الوقت قبل اتمامھا۔“ترجمہ: ” اگر مسافر نے نماز کے وقت کے اندرمقیم کی اقتداء کی جو چار رکعت والی نماز پڑھ رہا تھا اگرچہ مسافر  قعدہ اخیرہ میں آیا ہو تو اس کی اقتداء درست ہوجائے گی اور وہ (مسبوق مسافر)پوری چار رکعتیں ہی ادا کرے گا،اسی طرح حضرتِ سیدنا ابن عباس وسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرو ی ہے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ مسافر مقتدی چونکہ  اپنے امام کے تابع ہوتا ہےتو اس کا فرض چار کی طرف تبدیل ہوجائے گا جیسا کہ اقامت کی نیت کرلینے سے مسافر کے فرض چار کی طرف تبدیل ہوجاتے  ہیں کیونکہ تبدیل کرنے والی چیز سببِ نماز یعنی وقت کے ساتھ متصل ہے تو وہ چار رکعت پوری ادا کرے گا اگر چہ نماز مکمل کرنے سے پہلے ہی  نماز کا وقت نکل جائے ۔“(امدادا لفتاح شرح نور الایضاح،ص 471،مطبوعہ کوئٹہ)

   مبسوط سرخسی میں ہے :”(ودخول المسافر في صلاة المقيم يلزمه الإكمال إن دخل في أولها أو في آخرها قبل السلام)؛ لأن الاقتداء بالمقيم في تغير الفرض كنية الإقامة، ولا فرق فيه بين أول الصلاة وآخرها فهذا مثله۔ “یعنی مسافر کا مقیم کی اقتداء کرنا مسافر پرمکمل نماز کو  لازم کردیتا ہے خواہ مسافر نے نماز کے شروع میں اقتداء کی ہو یا پھر اس نے نماز کے آخر میں سلام سے پہلے پہلے مقیم امام کی اقتداء کی ہو، کیونکہ مقیم کی اقتداء کرنا مسافر کے فرض کو تبدیل کرنے میں اقامت کی نیت کرنے  کی طرح ہے، اور مسافر اقامت کی نیت نماز کے شروع میں کرے یا پھر نماز کے آخر میں کرے دونوں ہی صورتوں میں کوئی فرق نہیں  پس یہ اقتداء والا مسئلہ بھی اسی کی مثل ہے۔ (المبسوط، کتاب الصلاۃ، ج01،ص 248، دار المعرفة، بيروت)

   بہار شریعت میں ہے:”وقت ختم ہونے کے بعد مسافر مقیم کی اقتدا نہیں کر سکتا،  وقت میں کر سکتا ہے اور اس صورت میں مسافر کے فرض بھی چار ہوگئے یہ حکم چار رکعتی نماز کا ہے ۔“(بہارِ شریعت، ج 01، ص 749، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی نوریہ میں ہے:”(مسافر پر) متابعتِ مقیم کی وجہ سے چار لازم ہوتی ہیں۔ (فتاوٰی  نوریہ ، ج 01، ص 603، دار العلوم حنفیہ فریدیہ بصیر پور ضلع اوکاڑہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم