Musafir Ne 15 Din Theharne Ki Niyat Ki Aur Achanak Kaam Par Gaya To Hukum

مسافر نے 15 دن ٹھہرنے کی نیت کی اور اچانک کام پڑ گیا تو اب کیا حکم ہے ؟

مجیب:ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:107

تاریخ اجراء: 17جمادی الاولی1445ھ/02دسمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ میں اپنے آبائی علاقہ سے تقریبا 200 کلومیٹر دور ایک شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے مقیم تھا۔ابھی چار دن ہی گزرے تھے کہ کسی کام کے سلسلے میں  مجھےدو دن کے لئےقریبی شہرجو مدت سفر سے کم پر واقع ہے ، میں جانا پڑ گیا،تو ایسی صورت میں  ان دو دنوں میں اور واپس آنے کے بعد میں  پوری نماز پڑھوں گایا قصر کروں گا؟ 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسافر  شرعی جب کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرلے،تو وہ  جگہ اس کے لئے وطن اقامت بن جاتی ہے ۔اس کے بعد جب تک وہ وطن اصلی میں نہ چلا جائے یا کسی اور جگہ کو وطنِ اقامت نہ بنالےاگرچہ وہ مدت ِسفر سے کم فاصلے پر ہو یا  سفرِ شرعی کے لئے روانہ نہ ہوجائے،اس وقت تک مقیم ہی رہےگااور پوری نماز پڑھے گا۔

   پوچھی گئی صورت میں جب آپ نے اس شہر میں پندرہ دن رہنے کی نیت کرلی ،تووہ آپ کا وطن اقامت بن گیا ،اس کےبعدچونکہ آپ کا اپنے وطن اقامت سے دوسرے شہر کا سفر، سفر شرعی نہیں ہے اور وہاں پر قیام بھی فقط دو دن کے لئےہے پندرہ دنوں کے لئے نہیں ہے،تو آپ کا وطن اقامت باطل نہ ہوا، لہذا آپ  مقیم ہی رہیں گے ، ان دو دنوں میں اور واپس آنے کے بعد پوری نماز پڑھیں گے۔

   تنویرالابصارودرمختارمیں ہے:"يبطل(وطن الاقامة بمثله و)بالوطن(الاصلي و) بإنشاء(السفر)"یعنی وطنِ اقامت دوسرے وطنِ اقامت سے،وطن اصلی سےیوں ہی سفرشروع کرنے سے باطل ہوجاتاہے۔)تنویر الابصار ودرمختار  مع ردالمحتار ،جلد02، صفحہ 739،مطبوعہ کوئٹہ(

   ردالمحتار میں ہے:"قولہ (بمثلہ) أی سواء کان بینھما مسیرۃ سفر أو لا"ماتن رحمۃ  اللہ علیہ کا قول:( وطن اقامت دوسرے اقامت سے باطل ہوجاتا ہے) اگرچہ ان دونوں کے درمیان سفرشرعی کی مسافت پائی جائے یا نہیں۔)ردالمحتار، جلد 02، صفحہ 739،مطبوعہ کوئٹہ(

   بہار شریعت میں ہے:"وطن اقامت دوسرے وطن اقامت کو باطل کر دیتا ہے یعنی ایک جگہ پندرہ دن کے ارادہ سے ٹھہرا پھر دوسری جگہ اتنے ہی دن کے ارادہ سے ٹھہرا، تو پہلی جگہ اب وطن نہ رہی دونوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہو ۔یونہی وطن اقامت وطن اصلی وسفر سے باطل ہو جاتا ہے۔" )بہار شریعت ، جلد 01، صفحہ ،751مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی(

   فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:”خراسانی قدم بغداد وعزم علی الاقامۃ بھا خمسۃ عشر یوما،ومکی قدم الکوفۃ وعزم علی الاقامۃ بھا خمسۃ عشر یوما،ثم خرج کل واحد منھما من وطنہ یرید قصر ابن ھبیرۃ فانھما یصلیان اربعا فی الطریق وبالقصر لانھما کانا متوطنین احدھما ببغداد والآخر بالکوفۃ،ولم یقصدا مسیرۃ مدۃ السفر،لان من بغداد الی کوفۃ مسیرۃ اربع لیال والقصر ھوالمنتصف،وکان کل واحد منھما قاصدا مسیرۃ لیلتین فبھذالا یصیر مسافرا،فان عزما علی الاقامۃ بالقصر خمسۃ عشر یوما صارالقصر وطن سفر لھما وانتقض وطن المکی بالکوفۃ ووطن الخراسانی ببغداد بوطن مثلہ،ملخصا“خراسانی بغداد گیا اور وہاں اس کی پندرہ دن رہنے کی نیت تھی۔مکی کوفہ میں گیا اور وہاں اس کی پندرہ دن رہنے کی نیت تھی،پھر ان میں سے ہر ایک اپنے وطن سے قصر ابن ہبیرہ کے ارادے سے نکلے،تو راستے میں اور قصر ابن ہبیرہ پہنچ کر چار رکعتیں پڑھیں گے،کیونکہ  ان دونوں کے وطن)اقامت بن گئے) ہیں ایک کا بغداد میں دوسرے کا کوفہ میں ۔اور انہوں نے مدتِ سفر کا قصد نہیں کیا،کیونکہ بغداد سے کوفہ چار راتوں کا سفر ہے قصر ان دونوں کے درمیان ہےاور ان میں سے ہر ایک نےدو راتوں کے سفر کا ارادہ کیا ہے اور اتنے سفر سےمسافر نہیں ہوتا۔ہاں اگر قصر میں وہ پندرہ دن رہنے کی نیت کر لیں،تو قصر ان کا وطن اقامت بن جائے گا اور مکی کا کوفہ والا اور خراسانی کا بغداد والا وطن اقامت اپنی مثل کی وجہ سے باطل ہوجائے گا۔ )فتاوی تاتارخانیہ، جلد 01، صفحہ 512،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت(

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:" پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرا لیا اور اس کے بعد اتفاقاً چند راتوں کے لئے اور جگہ جانا ہوا جو الٰہ آباد سے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں اگرچہ دس بیس، بلکہ چھپن میل تک ہو تو سفر نہ ہوگا اس مقام ِ دیگر میں بھی نماز پوری پڑھنی ہوگی اور الٰہ آباد میں بھی۔")فتاویٰ رضویہ، جلد 08، صفحہ 252،251، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور(

   تنبیہ: یاد رہے مذکورہ صورت میں پوری نماز پڑھنے کا حکم اسی وقت ہے جبکہ واقعی  آپ کی ایک جگہ پورے پندرہ دن رہنے کی نیت ہواور بعد میں اتفاقاً کہیں جانا پڑجائے۔اگر پہلے ہی سے معلوم ہے کہ چار دن کے بعد دوسرے شہر میں کام کےلئے جانا ہو گااور وہاں کم ازکم ایک رات گزارنی ہوگی،تو اس صورت میں یہ جگہ آپ کے لئے وطن اقامت نہیں بنے گی اور دونوں جگہوں میں قصرنماز پڑھنی ہوگی،کیونکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق وطن اقامت بننے کے لئے کسی ایک جگہ پر پورے پندرہ دن گزارنے کی نیت کرنا ضروری ہے اور یہاں پر پندرہ دن کی نیت سے مراد پندرہ راتیں بسر کرنے کی نیت ہے کہ اقامت میں معتبر رات بسر کرنا ہے اگرچہ دن میں کسی دوسرے مقام پر جانے کی نیت ہواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ دوسرا مقام مدتِ سفر سے کم پر ہواور اگر ایک رات بھی کسی اور مقام پر گزارنے کی نیت ہو اگرچہ وہ مدتِ سفر سے کم ہو،تو وطن اقامت نہیں بنے گا اور نماز میں قصرکرنا ضروری ہوگا۔

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:"أن الحاج إذا دخل مكة في أيام العشر ونوى الإقامة نصف شهر لا تصح، لأنه لا بد له من الخروج إلى عرفات"حاجی جب (ذوالحجہ کے)دس دنوں میں مکہ میں داخل ہو اور وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے،تو یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ عرفات جانا اس کا ضروری ہے۔ )فتاوی عالمگیری، جلد 01، صفحہ 298،مطبوعہ کوئٹہ(

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:"الٰہ آباد میں پورے پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم  تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہوگا، تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا ۔’’فی الدر المختار لو دخل الحاج مکۃ ایام العشر لم تصح نیتہ لانہ یخرج الٰی منٰی وعرفۃ ‘‘درمختار میں ہے کہ اگر کوئی حاجی مکہ میں ذوالحج کے عشرہ میں داخل ہوا تو اس کی نیت  درست نہیں، کیونکہ اس نے منٰی اورعرفات کی طرف جانا ہے ۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 08،صفحہ252،251،ملتقطا۔مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم