Musafir Ko Jamaat Mil Jaye To Qasr Behtar Hai Ya Jamaat?

مسافرکو جماعت مل جائےتوقصر بہتر ہے یا جماعت؟ نیز جمعہ و عیدین کاحکم؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Book-149

تاریخ اجراء:22ذوالحجۃ الحرام1428ھ/02جنوری2008ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ اگرمسافرکوصحیح جماعت مل جائے،تواس کےلیےقصرکرنا بہتر ہے یا جماعت سے پڑھنا؟ جمعہ وعیدین کاکیاحکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    صورت مسئولہ میں اگرشرعی مسافررواروی کی حالت میں نہ ہو،بلکہ مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا،تواس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ باجماعت نماز پڑھے،لیکن اگر کوئی نہیں پڑھے، تو اسے ترک جماعت کی وجہ سے گنہگارنہیں کہاجائے گا کہ مسافرکے حق میں جماعت کا وہ تاکیدی حکم نہیں رہتا، جو مقیم کے حق میں ہے جیساکہ سنت مؤکدہ کا مسافر کے حق میں وہ تاکیدی حکم نہیں رہتا، جو مقیم کےلئےہے،ہاں جو مقتدا و پیشوا ہو اس  کے لئے حد درجہ نامناسب بات ہے کہ مسافر ہونے کی وجہ سے وہ حاضری مسجد و جماعت ترک کرے۔

    جیساکہ ابو البرکات محمد مصطفی رضا قادری نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”بلا وجہ شرعی جوتارک جماعت ومسجد ہو فاسق ہے،مگر جو نماز وہ گھر میں پڑھے گا ہوجائے گی، بےوجہ شرعی ترک جماعت و مسجد کا اس پر الزام ہوگا،مگر مسافر کہ اسے رخصت ہے ،بہتر اس کے لئے بھی حاضری مسجد وجماعت ہے،مگراس پر لازم نہیں، خصوصا ًمقتدی وپیشوا اصحاب کے لئے ان کا ترک مسجد وجماعت محض بر بنائے سفر ہر گز مناسب نہیں، حد درجہ نامناسب ہے۔“(فتاوی مصطفویہ ،صفحہ456،مطبوعہ شبیربرادرز لاہور)

    صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اگر سفر میں اطمینان نہ ہو جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کےہے۔ درمختارمیں ہے: ’’(و یأتی) المسافر(بالسنن )ان کان( فی حال امن وقراروالا)بان کان فی خوف وفرار (لا)یأتی بھاوھوالمختارلانہ ترک لعذر‘‘اور یہ حکم سنت فجر کے غیر کا ہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے لہذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا یہ قول بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے، کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سفر وحضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیاہے۔ (فتاوی امجدیہ ،جلد 1،صفحہ284،مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

    اسی طرح جمعہ وعیدین مسافر شرعی پر فرض نہیں ہیں، لیکن اگرپڑھے گا،توثواب پائے گااور جمعہ پڑھنے کی صورت میں اس سے ظہر ساقط ہوجائے گی۔

   چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:’’اذامرالامام بمدینۃوھومسافرفصلی بھم الجمعۃ اجزأہ واجزأھم نقول قد اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الجمعۃ بمکۃ وھو کان مسافر بھا  وانمالا یجب الحضور علی المسافر لدفع الحرج فاذا حضر و ادی کان مفترضاکالمریض۔ ملخصا‘‘یعنی جب امام حالت سفر میں کسی شہر سے گزرے اور انہیں نماز  جمعہ پڑھائے، تو امام اور لوگوں کو جمعہ کافی ہو گا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکۃ المکرمہ میں جمعہ قائم فرمایا ،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں مسافر تھے اور جو یہ کہا گیا ہے کہ مسافر پر جمعہ واجب نہیں ہے، اس کی وجہ مسافر سے حرج کو دور کرنا ہے، تو اگر وہ خود جمعہ کے لئے حاضر ہوگیا اور جمعہ ادا کرلیا، تو وہ مریض کی طرح فرض جمعہ ادا کرنے والاہوگا۔ (المبسوط للسرخسی ،جلد 1،صفحہ247،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

   صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :” گاؤں میں رہنے والے شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے، تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو تو زوال سے پہلے یا بعد، تو فرض نہیں مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے،یونہی مسافر شہر میں آیا اور نیتِ اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں۔“ (بہارشریعت، جلد 1، صفحہ 763،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم