Musafir Ka Sharai Safar Kab Shuru Hota Hai Aur Kab Khatam Hota Hai ?

مسافر کا شرعی سفر کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے؟

مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری 

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی  نمبر:96

تاریخ  اجراء:23 ربیع الآخر 1445 ھ/08نومبر23 20 ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قادر پور راواں ،ملتان کے نواح میں واقع ایک شہر ہے،دونوں میں چند کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔میری رہائش قادر پور راواں کی ہے اورکام کے سلسلے میں کراچی وغیرہ مختلف شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ میرے سفر کی ابتدا و اختتام کے متعلق کیا حکم ہوگا یعنی میں کب مسافر بنوں گا اور کب میرا سفر اختتام پر پہنچے گا؟کیونکہ ٹرین وغیرہ کے ذریعے عموما سفر کی ابتداو انتہا ملتان سے ہوتی ہے  تو ملتان میں مجھے قصرکرنی ہوگی یا پوری نماز پڑھنی ہوگی؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   مسافر  بننے نہ بننے کے لئے اپنے شہر کی حدود  سے نکلنے   ،نہ نکلنے کا اعتبار ہے یعنی سفر کا ارادہ رکھنے والا شخص  اپنے شہر کی  آبادی سے باہر ہوجائے  اور اگر فنائے شہر(یعنی  آبادی سے باہر  ایسی جگہ جوشہر کی ضروریات و مصالح کے لئے بنی ہوتی  ہے ،جیسے کوڑا پھینکنے کی جگہ ،قبرستان وغیرہ،یہ جگہ )بھی آبادی سے متصل یعنی ملی ہوئی ہو ،تو اس سے باہر ہونا بھی ضروری ہے۔سفر کا ارادہ رکھنے والا شخص اس تفصیل کے مطابق شہر کی حدود سے جب باہر چلا جائے گا، تو مسافر ہوجائے گا اور  اسے نماز میں قصر کرنی ہوگی اور جب اسی تفصیل کے مطابق اپنے شہر کی حدود میں  دوبارہ داخل ہوگا، تو مسافر کے اَحکام ختم ہوجائیں گے اور پوری نماز پڑھنی ہوگی۔

   مذکورہ بالا تفصیل سے آپ  کے سوال کا  جواب واضح ہوگیا کہ  آپ کا  شہر چونکہ قادر پور راواں ہے،ملتان نہیں ہے،لہذا کراچی وغیرہ 92 کلو میٹر یا اس سے زائد سفر کے ارادے سے جب آپ اپنے شہر کی حدود سے باہر چلے جائیں گے، تو مسافر کہلائیں گے اور نماز میں قصر کرنی ہوگی، یوں آپ ملتان میں  بھی قصر نماز ادا کریں گے۔یونہی واپسی پر جب آپ اپنے شہر کی حدود میں داخل ہوں گے،تب مسافر کے احکام ختم ہوں گے،لہٰذا واپسی پر بھی آپ   ملتان میں مسافر ہی ہوں گے اور قصر نماز ادا کریں گے۔ 

   ملتقی الابحر و درمنتقی  میں ہے:’’(ولا یزال علی حکم السفر)من القصر و جواز القصر (  حتی یدخل وطنہ)‘‘اور مسافر قصر کرنے اور قصر کے جائز ہونے میں  مسافر کے حکم میں رہے گا یہاں تک کہ اپنے وطن (گاؤں یا شہر)میں داخل ہوجائے۔ (ملتقی الابحر و درمنتقی مع مجمع الانہر،جلد 1، صفحہ 240،مطبوعہ کوئٹہ)

   رد المحتار میں  ہے:’’اما الفناء وھو المکان المعد لمصالح البلد کربض الدواب و دفن الموتی والقاء التراب ،فان اتصل بالمصر اعتبر مجاوزتہ‘‘رہا فنائے شہر تو وہ ایسی جگہ ہے،جو شہر کی مصالح کے لئے ہوجیسے گھوڑ دوڑ کا میدان،قبرستان اور مٹی ڈالنے کی جگہ،پس اگر یہ شہر سے متصل ہو تو (مسافر بننے کے لئے)اس سے نکل جانے کا  بھی اعتبار ہوگا۔ (رد المحتار،جلد 2، صفحہ 722،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:"مسافر اس وقت تک مسافر ہے جب تک اپنی بستی میں نہ پہنچ جائے۔"( بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 744،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   بہار شریعت میں ہے:"فنائے شہر یعنی شہر سے باہر جو جگہ شہر کے کاموں کے لئے ہو مثلاً  قبرستان گھوڑ دوڑ کا میدان ،کوڑا پھینکنے کی جگہ اگر یہ شہر سے متصل ہو تو اس سے باہر ہوجانا ضروری ہے۔اور اگر شہر و فناء کے درمیان فاصلہ ہو تو نہیں۔"( بہار شریعت،جلد 1،صفحہ 742،مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم