مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Book-148
تاریخ اجراء:21جمادی الثانی1437ھ/31مارچ2016ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم جس جگہ کام کرتے ہیں وہ جگہ کراچی سے تین سو کلو میٹر دور واقع ہے اور آس پاس کوئی مستقل آبادی بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مسجد ہے، یہ جگہ بھٹ کا پہاڑی سلسلہ کہلاتاہے اور اس کے قریب کوئی شہر یا بڑی آبادی نہیں، البتہ 45کلومیٹر کے فاصلے پر سہون شریف واقع ہے۔ کمپنی کے اندر دو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوئی ہیں، جن میں سے ایک کو مستقبل میں باقاعدہ مسجد بنانے کا ارادہ ہے، ان دونوں جگہوں پر پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے اور ایک جگہ پر جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے۔ ہماری ڈیوٹی کا شیڈول کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ ہمیں چودہ دن سائٹ پر رہنا ہوتا ہے اور چودہ دن ہم فیلڈ بریک پر گھر آجاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار طے شدہ پروگرام کے تحت اور کبھی ایمرجنسی میں سائٹ پر چودہ دن سے زیادہ بھی رکنا پڑتا ہے۔ ہماری آمد و رفت اکثر ہوائی جہاز کے ذریعے ہوتی ہے۔
جہاں ہماری رہائش کا انتظام کیا گیا ہے، وہ ہائی کلاس سٹینڈرڈ کے مطابق ہے اور ہر طرح کی بنیادی سہولیات ہمیں میسر ہیں ، ہمارا ضروری سامان وہیں رکھا رہتا ہے۔اس کمپنی میں تقریباً ڈیڑھ سو ملازمین مذکورہ طریقے کے مطابق کام کرتے ہیں، جبکہ پینتیس سے چالیس افراد وہاں مستقل رہائش پذیرملازم ہیں ،جو چند مخصوص ایام میں ہی چھٹی پر گھر جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جگہ ہر ایک کے گھر سے شرعی سفر یعنی تقریباً92 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر واقع ہے، لہٰذا مذکورہ صورتِ حال کے پیشِ نظر درج ذیل اُمور میں رہنمائی فرما دیں:
(1)کیا ہمیں تراویح اور دیگر سنتیں چھوڑنے کی اجازت ہو گی؟
(2)مذکورہ فیکٹری میں جمعہ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)فیکٹری میں اگرچہ آپ مسافر ہیں مگر حالتِ امن و قرار میں ہوتے ہیں، اس لیے وہاں تراویح اور دیگر سنتیں ادا کرنے کا معمول بنائیں، کیونکہ سنتیں فرائض کی تکمیل کے لیے مشروع ہوئی ہیں اور مسافرکو بھی فرض کو مکمل کرنے کی حاجت ہے ۔
بحر الرائق میں ہے:’’واختلفوا فی ترک السنن فی السفر فقیل :الأفضل ھو الترک ترخیصا وقیل الفعل تقربا وقال الھندوانی:الفعل حال النزول والترک حال السیر ، وقیل یصلی سنۃ الفجر خاصۃ،وقیل سنۃ المغرب أیضا ، وفی التجنیس والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار یأتی بھا لأنھا شرعت مکملات والمسافر إلیہ محتاج وإن کان حال خوف لا یأتی بھالأنہ ترک بعذر‘‘ترجمہ :سفر کی حالت میں سنتیں چھوڑنے میں علما کا اختلاف ہے، ایک قول یہ ہے کہ رخصت کے طور پر ترک کرنا افضل ہے اور ایک یہ ہے کہ نیکی اور قربِ الہی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سنتیں ادا کرنا افضل ہے اور امام ہندوانی رَحِمَہُ اللہُ نے فرمایا کہ جب سفر نہ کر رہے ہوں، تو ادا کریں اور جب سفر کر رہے ہوں،تو چھوڑ دیں اور ایک قول کے مطابق بالخصوص فجر کی سنتیں ادا کرے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ادا کرے گا، اور تجنیس میں ہے کہ مختار قول یہ ہے کہ اگر امن و قرار کی حالت میں ہے، تو سنتیں ادا کرے،کیونکہ سنتیں فرض کی تکمیل کے لیے مشروع ہیں اور مسافر بھی فرض کی تکمیل کا محتاج ہے اور اگر( سواری نکل جانے کا) خوف ہو تو ادا نہ کرے، کیونکہ یہاں عذر کی وجہ سے سنت کو ترک کیا ہے۔( بحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، جلد2، صفحہ 229-230،مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں بحالتِ سفر سنتیں ادا کرنے کے متعلق حکم لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’یہ حکم سنتِ فجر کے غیر کا ہے اور سنتِ فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہٰذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا قول یہ بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے ،کیونکہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر وحضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیا ہے ۔‘‘ (فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ 284، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)
(2)فیکٹری کے اندر جمعہ ادا کرنا متعدد اعتبارات کی بِنا پر درست نہیں،مثلاً:ادائے جمعہ کے لیے شرط ہے کہ شہر میں ہو اور فیکٹری شہر میں نہیں ہے ، اسی طرح فیکٹری میں اذنِ عام نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا ، کہ جو نماز ادا کرنا چاہے وہ ادا کر لے، بلکہ مخصوص افراد جو وہاں کے ملازم ہوتے ہیں ، صرف انہی کو جمعہ ادا کرنے کی اجازت ہوتی ہے ، جو کہ جمعہ قائم کرنے کی شرائط میں سے ہے ، ہاں جو عوام وہاں جمعہ کی نماز ادا کرتی ہے، انہیں جمعہ ادا کرنے سے نہ روکا جائے کہ عوام جس طرح بھی اللہ کا نام لیں غنیمت ہے ۔
امام حاکم شہید رحمۃ اللہ علیہ کافی میں فرماتے ہیں :’’فأما الشرائط في غير المصلى لأداء الجمعة فستة المصر والوقت والخطبة والجماعة والسلطان والإذن العام‘‘ ترجمہ :جہاں نمازِ جمعہ ادا کی جاتی ہے ، اس کے علاوہ کسی جگہ جمعہ پڑھنے کی چھ شرطیں ہیں ، شہر ہونا ، وقت ، خطبہ ، جماعت ، سلطان اور اذنِ عام ہونا ۔ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 453،454، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
امام شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’والإذن العام من شرائطھا حتی أن السلطان إذا صلی بحشمہ فی قصرہ فإن فتح باب القصر وأذن للناس إذنا عاما جازت صلاتہ شھدھا العامۃ أو لم یشھدوھا وإن لم یفتح باب قصرہ ولم یأذن لھم فی الدخول لا یجزئہ‘‘ترجمہ: جمعہ کی ادائیگی کی شرائط میں سے اذنِ عام ہونا ہے یہاں تک کہ اگر سلطان اپنی جاہ و حشمت کے ساتھ اپنے محل میں جمعہ ادا کرتا ہے، تو اگر اس نے دروازہ کھول دیا اور لوگوں کو آنے کی عام اجازت دے دی، تو اس کی نماز ہو جائے گی ، لوگ آئیں یا نہ آئیں ۔ اور اگر اس نے محل کا دروازہ نہ کھولا ، نہ انہیں داخل ہونے کی اجازت دی تو اس کا جمعہ نہیں ہوا ۔( المبسوط للسرخسی، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، جلد2، صفحہ 27، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)
فتاویٰ رضویہ میں ہے:’’جمعہ وعیدین دیہات میں ناجائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ، مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں، تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح اﷲ ورسول کا نام لے لیں غنیمت۔‘‘( فتاوی رضویہ ،جلد8، صفحہ 387، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟