Musafir Ke Liye Namaz e Maghrib Mein Qasr Karne Neez Sunnaton Aur Witr Ka Hukum

مسافر کے لیے نمازِ مغرب میں قصر کرنے ، نیز سنتوں اوروتر کا حکم؟

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Book-146

تاریخ اجراء:07رمضان المبارک1437ھ/13جون2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شرعی سفر کی مسافت کتنی ہے؟ نیز سفرکے دوران سنتیں پڑھنےکا کیاحکم ہے؟ اور مغرب کے فرضوں میں قصر کیسے ہو گی؟  سفر کے دوران وتر کی نماز چھوڑ سکتے ہیں یانہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    تین دن رات کی پیدل یا اونٹ وغیرہ کی سواری کی متوسط مسافت کی مقدارمتصل سفر شرعی سفر کہلاتا ہے اور اتنی مقدار میں متصل سفر کرنےوالاشخص شرعی مسافرکہلاتا ہے، آج کل کے حساب سے اس کی کم از کم مقداربانوے کلو میٹربنتی ہے،لہٰذا اگر بانوے کلو میٹر یا اس سے زیادہ متصل سفر کی نیت سے کوئی شخص اپنے علاقے کی آبادی سے باہر نکلے تووہ شرعی مسافرکہلائے گا، اس کے بعد جب تک کہیں پر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت نہ کرے یا اپنے وطن اصلی میں داخل نہ ہو ،مسافر ہی رہے گا،اس دوران نمازوں میں قصر واجب ہو گی۔

    مسافرظہر، عصر اور عشا کے فرائض میں قصرکرکےچارچارکی جگہ دو دو فرائض پڑھے گا، البتہ فجر اور مغرب کی نماز میں قصر نہیں ہوگی، یہ دونوں نمازیں پوری پوری ہی پڑھے گااور سفر ہویاحضر،اس میں وتر بہر حال واجب ہیں ،اوران میں قصر بھی نہیں ہے۔سفرمیں حالت اطمینان و قرار میں ،تو سنت مؤکدہ ادا کرنی چاہیے، البتہ اگر امن و قرار کی حالت نہ ہو، بلکہ روا روی یعنی جاری سفر کی صورت ہو، تو سنتیں ترک کرنے میں کوئی حرج  نہیں ،یہ حکم سنت فجر کے علاوہ باقی سنتوں کا ہے ، سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہیں اس لیے ان کے ترک کی اجازت نہیں ۔

    حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے، فرماتے ہیں :”صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الحضر والسفر فصلیت معہ فی الحظر الظھر أربعاً و بعد ھا رکعتین و صلیت معہ فی السفر الظھر رکعتین و بعد ھارکعتین و العصر رکعتین ولم یصل بعدھا شیئاً و المغر ب فی الحضر و السفر سواء ثلاث رکعات لا ینقص فی حضر و لا سفر و ھی وتر النھار و بعدھا رکعتین“میں نے حالت اقامت اور حالت سفرمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حالت اقامت میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور حالت سفر میں نماز ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور پڑھیں اور (حالت سفر میں) نمازعصرکی دو رکعتیں پڑھیں اور اس کے بعد کچھ نہ پڑھا اور نماز مغرب کی سفر و حضر میں تین ہی رکعتیں پڑھیں اس میں کمی نہ کی اور یہ دن کے وتر ہیں اور اس کے بعد دورکعتیں اداکی۔ (جامع ترمذی، صفحہ163 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی ہے، فرماتے ہیں :”صلی فی السفر الظھر رکعتین و صلی بعدھا رکعتین وصلی  العصر رکعتین ولیس بعدھا شیٔ وصلی المغرب  ثلاثاً وبعدھارکعتین وصلی العشاء رکعتین و بعدھارکعتین“یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نےسفر میں ظہرکی دو رکعتیں اد ا فرمائیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اور ادا فرمائیں اور عصر کی نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد کچھ ادانہ فرمایااور مغرب کی تین رکعتیں ادافرمائیں اور اس کے بعد دو رکعتیں ا ور ادا فرمائیں اور عشا کی دو رکعتین ادا فرمائیں اور اس کے بعد دو رکعتیں اورادافرمائیں ۔ (شرح معانی الآثارمع نخب الافکار،جلد 6،صفحہ350 ،مطبوعہ دار النوادر)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”و لا بد للمسافر من قصد مسافۃ مقدرۃ بثلاثۃ أیام حتی یترخص برخصۃ المسافرین و إلا لا یترخص أبدا و لو طاف الدنیا جمیعھا“اور مسافر کو رخصت کا حکم اس وقت حاصل ہو گا، جب متصل تین دن کے سفر کا قصد کرے اور اگر اتنا قصد نہ کرے گا،تو اگرچہ تمام دنیا گھوم آئے رخصت سفرکا حکم حاصل نہ ہو گا۔ (فتاوی عالمگیری جلد 1،صفحہ 153 ،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ” اگر اپنے مقام اقامت سے ساڑھے ستاون میل کے فاصلے پرعلی الاتصال جاناہوکہ وہیں جانامقصود ہے بیچ میں جانامقصود نہیں ، اور وہاں پندرہ دن کامل ٹھہرنے کا قصد نہ ہو، تو قصر کریں گے، ورنہ پوری پڑھیں گے۔“( فتاوی رضویہ ،جلد 8،صفحہ 270 ، مطبوعہ  رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   صدر الشریعہ بدرالطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں : ” شرعاًمسافر وہ شخص ہے جو تین دن کی راہ تک جانے کےارادہ سے بستی سے باہرہوا۔۔۔سفرکے لیے یہ بھی شرط ہے کہ تین دن کا ارادہ متصل سفر کا ہو،اگریوں ارادہ کیاکہ مثلاً  دودن کی راہ پر پہنچ کر کچھ کام کرناہے وہ کرکےپھرایک دن کی راہ جاؤں گا، تو یہ تین دن کی راہ کا متصل ارادہ نہ ہوا مسافر نہ ہوا۔“(بہار شریعت ،جلد1 ،صفحہ 743 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

   امداد الفتاح میں مسافر کے لیے سنتوں کے بارے میں ہے کہ:”وفی التجنیس: المختار أنہ إن کان حال أمنۃ و قرار یأتی بھا أی السنن لأنھا شرعت مکملات و المسافر محتاج إلیہ و إن کان حال خوف لا یأتی بھا لأنہ ترک بعذر“تجنیس میں ہے : مختار یہ ہے کہ مسافر حالت امن و  قرار  میں سنتیں اداکرے گا۔ کیونکہ سنت فرض کی تکمیل کے لئے مشروع کی  گئی ہیں اور مسافر بھی اس کا محتاج ہے۔اور اگر حالت خوف ہو، تو انہیں ادا نہیں کرے گا عذر کی وجہ سے۔(امداد الفتاح، صفحہ 438،مطبوعہ مکتبہ امین)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”و لا قصر فی السنن کذا فی محیط السرخسی، و بعضھم جوزوا للمسافر ترک السنن و المختار أنہ لا یأتی بھا فی حال الخوف و یأتی بھا فی حال القرار و الأمن ھٰکذا فی الوجیز الکردری“  سنتوں میں قصر نہیں اسی طرح محیط سرخسی میں ہے اور بعض علماء نےمسافرکے لیے سنتوں کو ترک کرنا،جائز رکھاہے، جبکہ مختار یہ ہے کہ خوف کی حالت میں نہیں پڑھے گا اور امن کی حالت میں ان کو پڑھے گا، وجیز کردری میں اسی طرح ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد1،صفحہ153، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”اگر سفر میں اطمینان نہ ہو ،جب تو سنتوں کے ترک میں کوئی قباحت ہی نہیں اور اطمینان ہو جب بھی سنن کا تاکد جو حضر میں ہے ،وہ سفر میں نہیں رہتا کہ سفر خود ہی قائم مقام مشقت کے ہے۔درمختار میں ہے:’’و یأتی المسافر بالسنن إن کان فی حال أمن و قرار و إلا بأن کان فی خوف و فرار لایأتی بھا و ھو المختار لأنہ ترک لعذر‘‘اور یہ حکم سنت  فجر کے غیر کا ہے اور سنت فجر چونکہ قریب بوجوب ہے، لہٰذا سفر کی وجہ سے اس کے ترک کی اجازت نہیں اور بعض ائمہ کا یہ قول بھی ہے کہ مغرب کی سنتیں بھی ترک نہ کرے،کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفرو حضر کہیں بھی اس کو ترک نہیں کیا۔(فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ284، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم