مجیب:ابو محمد محمدسرفراز اختر عطاری
مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر:Book-152
تاریخ اجراء:13جمادی الاولی1440ھ/20جنوری2019ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسافر جمعہ پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسافر اگرامامت کا اہل ہو یعنی مسلمان ہو،عاقل ہو،بالغ ہو،صحیح القراءۃ ہو ،معذور شرعی نہ ہو،سنی صحیح العقیدہ ہواورفاسق معلن نہ ہو، تو اگرچہ خود اس پر جمعہ فرض نہیں ،مگر جمعہ کی نماز کی امامت کرا سکتا ہے ،جبکہ جمعہ کی تمام شرائط متحقق ہوں، کیونکہ جمعہ کی امامت کے لئے خود امام پر جمعہ فرض ہونا ضروری نہیں،ہر وہ شخص امام ہو سکتا ہے ، جو دیگر نمازوں میں مردوں کی امامت کا اہل ہو اور علماء کی تصریح کے مطابق شرائطِ امامت پائے جانے کی صورت میں مسافر بھی اس کا اہل ہے۔
یاد رہے جمعہ کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ امام سلطانِ اسلام ہو یااس کا ماذون و اجازت یا فتہ ہو اور آج کل ضرورتاً مسلمانوں کی جماعت کی طرف سے منتخب کردہ آدمی بھی جمعہ کی امامت کرا سکتا ہے ،لہٰذا مسافر کے امام بننے کے لئے امامت کااہل ہونے اوردیگر شرائط جمعہ پائے جانے کے ساتھ ساتھ کم از کم،مسلمانوں کی جماعت کی طرف سے جمعہ کے لئے منتخب کیا جانا ضروری ہے، ان کی طرف سے منتخب کیے بغیر، خود سے جمعہ کا امام نہیں بن سکتا۔
تنویر الابصار میں جمعہ کی امامت کے متعلق فرماتے ہیں:" و یصلح للامامۃ فیھا من صلح لغیرھا،فجازت لمسافر و عبد و مریض"اور جو شخص جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہو ،وہ جمعہ کی امامت بھی کرا سکتا ہے، لہذا مسافر،غلام اور مریض کے لئے جمعہ پڑھانا،جائز ہے۔ (تنویر الابصار مع رد المحتار،جلد 03، صفحہ 33،مطبوعہ کوئٹہ)
درمختار کی عبارت:"من صلح لغیرھا"کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ای:لامامۃ غیر الجمعۃ والمراد الامامۃ للرجال۔ملخصا" یعنی جمعہ کے علاوہ نمازوں کی امامت کی صلاحیت رکھتا ہو اور(امامت سے) مراد مَردوں کی امامت ہے۔(رد المحتار،جلد 03،صفحہ33،مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:"جمعہ کی امامت ہرمرد کر سکتا ہے جو اور نمازوں میں امام ہو سکتا ہو اگرچہ اس پر جمعہ پر فرض نہ ہو جیسے مریض ،مسافر ،غلام۔"(بہار شریعت،جلد 1،صفحہ772،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
بہار شریعت میں امامت کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"مرد غیر معذور کے امام کے لئے چھ شرطیں ہیں: (1) اسلام۔ (2) بلوغ۔ (3)عاقل ہونا۔(4)مرد ہونا۔(5) قراءت۔(6)معذور نہ ہونا۔"(بہار شریعت،جلد 1،صفحہ560،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
مجمع الانہر میں ہے:"(و فسد اقتداء طاھر)صحیح ،والمراد بہ من لا عذر لہ (بمعذور)ای بمن بہ عذر وھو کسلسل البول و نحوہ لانہ یصلی مع الحدث حقیقۃً و انما جعل حدثہ کالعدم للحاجۃ الی الاداء فکان اضعف حالاً من الطاھر۔ ملخصا"اور طاہر یعنی تندرست آدمی ،جسے کوئی عذر لاحق نہ ہو،اس کا معذور یعنی عذر والے کی اقتدا کرنا فاسد ہے اور عذر جیسے پیشاب کے قطروں کا نکلنا اور اس کی مثل، کیونکہ معذور شخص حقیقتاً حدث کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس کے حدث کو محض نماز ادا کرنے کی حاجت کی وجہ سے کالعدم شمار کیا گیا ہے، لہٰذا وہ طاہر شخص سے کمزور حالت والا ہوگا۔(مجمع الانہر،جلد 1،صفحہ167،168،مطبوعہ مکتبۃ المنار کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن امامت کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "امام میں چند شرطیں ہیں۔ اولاً قرآن عظیم ایسا غلط نہ پڑھتا ہو،جس سے نماز فاسد ہو۔دوسرے وضو، غسل، طہارت صحیح رکھتا ہو۔سوم سنی صحیح العقیدہ ہو،بدمذہب نہ ہو۔چہارم فاسق معلن نہ ہو اسی طرح اور امورِ منافی امامت سے پاک ہو۔ملخصا"(فتاوی رضویہ،جلد6، صفحہ 543،مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)
بہا ر شریعت میں ہے:"جمعہ پڑھنے کے لئے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک بھی مفقود ہو،تو ہوگا ہی نہیں: "(1)مصر یا فنائے مصر۔(2)سلطان اسلام یا اس کا نائب جسے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا۔(3)وقت ظہر۔ (4)خطبہ۔ (5)جماعت یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد۔ (6)اذن عام۔"( بہار شریعت،جلد 1، صفحہ 762، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
تنویر الابصار ودر مختار میں لوگوں کے جمعہ کے لئےامام مقرر کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:"(ونصب العامۃ) الخطیب (غیر معتبر مع وجود من ذکر، اما مع عدمھم فیجوز) للضرورۃ"اور عام لوگوں کا خطیب مقرر کرنا معتبر نہیں ہے، ان کے پائے جانے کی صورت میں جن کا ذکر ہوا (سلطان اسلام یا اس کا نائب)، رہا ان کے نہ ہونے کی صورت میں (عام لوگوں کا جمعہ کا خطیب مقرر کرنا) تو یہ ضرورت کی وجہ سے جائز ہے۔( تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار،جلد 03، صفحہ 16،مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:"فی الواقع ادائے جمعہ کے لئے سلطان یا اس کا نائب یاماذون یا ماذون الماذون و ھلم جراً کا اقامت کرنا باتفاق ائمہ حنفیہ شرط ہے،کتب المذھب طافحۃ بذلک،مگر یہ ان شرائط سے ہے کہ محل ضرورت میں بخلفیت بدل ساقط ہو جاتی ہیں،جیسے صحت نماز کے لئے وضو شرط ہے اور پانی پر قدرت نہ ہو، تو تیمم اس کا خلیفہ و بدل ہے اور اس سے واضح تر استقبال قبلہ ہے کہ قطعاً شرط ہے اور بحال تعذر جہت تحری اس کی نائب ،یوں ہی اقامت سلطان بمعنی مذکور ضرور شرط جمعہ ہے یہاں بوجہ تعین مسلمین قائم مقام تعین سلطان ہے، تو اسے شرط نہ کہنا بھی غلط اور اس کے نہ ہونے کے سبب یہاں جمعہ صحیح نہ ماننا اس سے زیادہ باطل و غلط۔( فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ384،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے:"کسی شہر میں بادشاہ اسلام وغیرہ جس کے حکم سے جمعہ قائم ہوتا ہے نہ ہو،تو عام لوگ جسے چاہیں امام بنا ویں۔یوہیں اگر بادشاہ سے اجازت نہ لے سکتے ہوں، تو جب بھی کسی کو مقرر کر سکتے ہیں۔"( بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 765،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
تنبیہ: یاد رہے اوپر امامت کی شرائط میں ذکر کیے گئے معذور شرعی سے مراد ایسا شخص ہے،جسے ریح،قطرے وغیرہ نکلنے کا عذر ہو، ایسے شخص کے معذور شرعی بننے کے لئے ضروری ہے کہ نماز کا ایک پورا وقت ایسا گزرے، جس میں اسے اتنا بھی وقت نہ ملے کہ بغیر اس عذر کے وضو کر کے صرف فرض نماز ادا کر سکے،مثلاً: کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو اور عصرکا پورا وقت یعنی عصر سے مغرب تک قطرے نکلتے رہیں اور درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہ ہو کہ وہ وضو کرکے پاک کپڑے پہن کر صرف عصر کے فرض ادا کر سکے، تو ایسا شخص معذور شرعی ہے اور اس کے بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ وہ ایک نماز کے وقت میں ایک بار وضو کر لے اور اس سے جتنی چاہے نمازیں پڑھے اس عذر (قطروں) کی وجہ سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا اور ایسا شخص اس وقت تک معذور رہے گا جب تک وقت میں ایک بار بھی قطرہ آئے ۔ہاں جب پورے وقت میں ایک بار بھی قطرہ نہ آئے، تو اب وہ شرعی معذور نہیں رہے گااور اس کے دوبارہ معذور شرعی بننے کے لئے وہی پہلی کیفیت کا پایا جانا ضروری ہے۔
معذور شرعی کی مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق جو شخص معذور شرعی کے زمرے میں آتا ہو، حدث کے باوجود وقت کے اندر اندر ضرورتاً اس کا وضو برقرار رہے گا اوراس کی اپنی نماز ہو جائے گی،مگر یہ کسی تندرست یعنی غیر معذور شخص کی امامت نہیں کرا سکتا ۔
تنویر الابصار ودر مختار میں معذور شرعی کے متعلق فرماتے ہے:"(و صاحب عذر من بہ سلس بول) لا یمکنہ امساکہ (او استطلاق بطن او انفلات ریح او استحاضۃ ان استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ)بان لا یجد فی جمیع وقتھا زمناً یتوضا و یصلی فیہ خالیاً عن الحدث (ولو حکماً)لان الانقطاع الیسیر ملحق بالعدم(وھذا شرط) العذر (فی حق الابتداء وفی)حق (البقاء کفی وجودہ فی جزء من الوقت) ولو مرۃ (وفی)حق الزوال یشترط (استیعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقیقۃً)لانہ الانقطاع الکامل۔ملخصا"اور عذر والا جسے پیشاب کے جاری ہونے کا (عذر) ہو کہ اسے اس کا روکنا ممکن نہ ہو یا پیٹ کے چلنے کا (عذر) ہو یا ہوا نکل جانے کا (عذر) ہو یا بیماری کے خون جاری ہونے کا(عذر) ہو،تو اگر اس کا عذر فرض نماز کے پورے وقت کو گھیرے ہوئے ہو بایں طور کہ وہ اس کے پورے وقت میں اتنا زمانہ (وقت) نہ پائے، جس میں وضو کر سکے اور بغیر حدث کے نماز پڑھ سکے ،اگرچہ (یہ عذر)حکمی طور پر ہو، کیونکہ تھوڑا رکنا نہ رکنے کے ساتھ ملحق ہے اور یہ ابتداکے حق میں عذر کی شرط ہے اور باقی رہنے کےحق میں عذر کا وقت کے کسی حصے میں پایا جانا کافی ہے ،اگرچہ ایک ہی بار اور عذر ختم ہونے کے حق میں انقطاع کا حقیقی اعتبار سے پورے وقت کا احاطہ کرلینا شرط ہے، کیونکہ یہی پورا انقطاع ہے۔(تنویر الابصار،در مختار مع رد المحتار،جلد 1، صفحہ 553، مطبوعہ کوئٹہ)
عالمگیری میں ہے:"شرط ثبوت العذر ابتداءً ان یستوعب استمرارہ وقت الصلاۃ کاملاً"ابتدائی طور پر عذر کے ثابت ہونے کے لئے شرط ہے کہ اس کا استمرار نماز کے وقت کو کامل طور پرگھیرے ہوئے ہو۔(عالمگیری،جلد 1، صفحہ 45،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے:”ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا، وہ معذور ہے،اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وضو کر لے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وضو سے پڑھے،اس بیماری سے اس کا وضو نہیں جاتا،جیسے قطرے کا مرض ،یا دست آنا،یا ہوا خارج ہونا،یا دکھتی آنکھ سے پانی گرنا،یا پھوڑے،یا ناصور سے ہر وقت رطوبت بہنا،یا کان،ناف،پستان سے پانی نکلنا کہ یہ سب بیماریاں وضو توڑنے والی ہیں، ان میں جب پورا ایک وقت ایسا گزر گیا کہ ہر چند کوشش کی ،مگر طہارت کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکا،تو عذر ثابت ہو گیا۔جب عذر ثابت ہو گیا، تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا،مثلاً : عورت کو ایک وقت تو استحاضہ نے طہارت کی مہلت نہ دی اب اتنا موقع ملتا ہے کہ وضو کر کے نماز پڑھ لے ، مگر اب بھی ایک آدھ دفعہ ہر وقت میں خون آجاتا ہے، تو اب بھی معذور ہے۔یونہی تمام بیماریوں میں اور جب پورا وقت خالی گزر گیا اور خون نہیں آیا ،تو اب معذور نہ رہی جب پھر کبھی پہلی حالت پیداہو جائے، تو پھر معذور ہے اس کے بعد پھر اگر پورا وقت خالی گیا تو عذر جاتا رہا۔“( بہار شریعت،جلد 1، صفحہ 385،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟