Musafir Jaan Bujh Kar Qasr Na Kare To Gunahgar Hoga Aur Namaz Wajib ul Iada Hogi

مسافر جان بوجھ کر قصر نہ کرے تو گنہگار ہوگا اور نماز بھی واجب الاعادہ ہوگی

مجیب:ابومحمدمحمدسرفرازاخترعطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:130

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1438ھ/17اکتوبر2016ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسافر اگر نماز میں قصر نہ کرے پوری پڑھے ،تو کتب فقہ میں فقط اتنا لکھا ہوتا ہے کہ اگر عمداً ایسا کیا ہے ،تو گنہگار ہوگا ۔پوچھنا یہ ہے کہ فقط گنہگار ہوگا یا نماز واجب الاعادہ بھی ہوگی؟اسی طرح بھول کر اگر اس نے قصر نہ کی ہو ،تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       مسافر پر فرض نماز میں قصر کرنا یعنی چار رکعت والی نماز کو دو پڑھنا واجب ہے اور قوانین شرعیہ کے مطابق واجبات نماز میں سے کوئی واجب عمداً یعنی جان بوجھ کر چھوڑنے کی صورت میں نمازی گنہگار ہوتا ہے اور نماز بھی واجب الاعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہوتی ہے اور سہواً یعنی بھولے سے واجب چھوڑنے کی صورت میں گناہ، تو نہیں ہوتا، البتہ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، لہٰذا مسافر اگر نماز میں عمداً قصر نہ کرے، پوری پڑھے، تو اگر قعدہ اولیٰ بقدر ِتشہد کر چکا ہو تو مذکورہ بالا قانونِ شرعی کے مطابق عمداً ترک واجب کی وجہ سے گنہگار ہونے کے ساتھ ساتھ نماز بھی واجب الاعادہ ہوگی، یونہی مسافر اگر سہواً نماز میں قصر نہ کرے اور قعدہ اولیٰ بقدرِ تشہد کر چکا ہو، تو مذکورہ بالا قانونِ شرعی کے مطابق اس پر کوئی گناہ تو نہیں، البتہ آخر میں سجدہ سہو واجب ہوگا۔

   نیز مسافر کے حق میں دو رکعت ہی پوری نماز ہے، اس وجہ سے دو رکعت پر قعدہ فرض ہے،  لہٰذا عمداً یا سہواً قصر نہ کرنے کی صورت میں اگر قعدہ اولیٰ بھی نہ کیا ،تو ترک ِفرض کی وجہ سے فرض باطل ہوجائیں گے اوریہ نمازنفل ہو جائے گی۔

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:’’(صلی الفرض الرباعی رکعتین) وجوباً لقول ابن عباس:ان اللہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم أربعاً والمسافر رکعتین، ولذا عدل المصنف عن قولھم:قصر،لان الرکعتین لیستا قصراً حقیقۃً عندنا بل ھما تمام فرضہ‘‘مسافر چار رکعت والے فرض وجوبی طور پر دو پڑھے گا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول کی وجہ سے:بے شک اللہ تبارک و تعالی نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر مقیم کی نماز چار رکعتیں فرض فرمائیں اور مسافر کی نماز دو رکعتیں فرض فرمائیں اور اسی وجہ سے مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے فقہاء کے قول:’’مسافر قصر کرے گا‘‘سے عدول فرمایا ،کیونکہ ہمارے نزدیک حقیقت کے اعتبار سے دو رکعتیں قصر نہیں ہیں، بلکہ وہ مسافر کا پورا فرض ہیں ۔(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار،جلد 2،صفحہ 726، مطبوعہ کوئٹہ)

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:’’(فلو أتم مسافر ان قعد فی)القعدۃ (الاولیٰ تم فرضہ و) لکنہ (أساء) لو عامداً لتأخیر السلام و ترک واجب القصر و واجب تکبیرۃ افتتاح النفل و خلط النفل بالفرض وھذا لا یحل کما حررہ القھستانی بعد أن فسر ’’أساء‘‘ ب’’أثم‘‘واستحق النار‘‘پس اگر مسافر نے پوری نماز پڑھی، تو اگروہ پہلے قعدہ میں بیٹھ چکا ہو،تو اس کا فرض پورا ہوگیا لیکن وہ اساءت کا مرتکب ہوا اگر جان بوجھ کر کرنے والا ہوسلام میں تاخیر کرنے ،قصر کے واجب اور نفل کے شروع کرنے کی تکبیر کو ترک کرنے اور نفل کو فرض کے ساتھ ملانے کی وجہ سے اور یہ حلال نہیں ہے، جیسا کہ اس کو قہستانی نے تحریر فرمایا ہے بعد اس کے کہ انہوں نے ’’وہ اساءت کا مرتکب ہوگا‘‘کی تفسیر ’’وہ گنہگار ہوگا‘‘اورآگ کا مستحق ہوگا ،کے ساتھ کی ہے۔(تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار،جلد 2،صفحہ 733۔734،مطبوعہ کوئٹہ)

   امداد الفتاح ومراقی الفلاح میں ہے،واللفظ للامداد :’’(فاذا أتم الرباعیۃ و ) الحال أنہ (قعد القعود الاول) قدر التشھد (صحت صلاتہ) لو جود الفرض فی محلہ وھو الجلوس علی الرکعتین، و تصیر الأخریان نافلۃ لہ (مع الکراھۃ) لتأخیر الواجب وھو السلام عن محلہ ان کان متعمداً و ان کان ساھیاً یسجد للسھو (والا) أی:وان لم یکن قد جلس قدر التشھد علی رأس الرکعتین الاولیتین (فلا تصح) صلاتہ لترک فرض الجلوس فی محلہ و اختلاط الفرض بالنفل قبل اکمالہ‘‘ پس  مسافر جب چار رکعت والی نماز پوری پڑھے اور حال یہ ہو کہ وہ پہلا قعدہ بقدرِ تشہد  کر چکا ہو، تو اس کی نماز صحیح ہو جائے گی فرض کے اس کے محل میں پائے جانے کی وجہ سے اور وہ دو رکعتوں پر بیٹھنا ہے،اور دوسری دو رکعتیں اس کے لئے نفل ہو جائیں گی (لیکن نماز کی یہ صحت) کراہت کے ساتھ ہے ، واجب کو اس کے محل سے مؤخر کر دینے کی وجہ سے اور وہ (واجب) سلام ہے، (کراہت کا یہ حکم اس وقت ہے کہ) اگر جان بوجھ کر وہ یہ کام کرنے والا ہو اور اگر بھولے سے کرنے والا ہو تو سجدۂ سہو  کرے گا،وگرنہ یعنی اگر وہ پہلی دو رکعتوں پر تشہد کی بقدر نہ بیٹھا ہو، تو اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی، بیٹھنے کے فرض کو اس کے محل میں چھوڑنے اور فرض کو اس کے پورا کرنے سے پہلے نفل سے ملا دینے کی وجہ سے۔(امداد الفتاح، صفحہ 441،مطبوعہ مکتبہ امین)

   سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :’’جس پر شرعاً قصر ہے اور اس نے جہلاً پوری پڑھی اس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کا پھیرنا واجب۔‘‘)فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ 270،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور(

   بہار شریعت میں ہے:’’واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے، تو اس کی تلافی کے لئے سجدۂ سہو  واجب ہے۔قصداً واجب ترک کیا، تو سجدۂ سہو  سے وہ نقصان دفع نہ ہوگا بلکہ اعادہ واجب ہے۔ملخصا‘‘)بہار شریعت، جلد 1،صفحہ 708،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم