Musafir Imam Ke Peeche Muqeem Muqtadi Sajda Sahw Kare Ga?

 

مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی سجدہ سہو کرے یا نہیں؟

مجیب: ابو محمد محمد سرفراز اختر عطاری

مصدق:مفتی فضیل عطاری

فتوی نمبر:144

تاریخ اجراء: 08 جمادی الاولیٰ1445ھ/23نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ   اگر  مقیم شخص مسافر امام کے پیچھے نماز ادا کررہا ہو اور امام پر سجدۂ سہو  واجب ہوجائے، تو کیا اس کی اقتدامیں مقیم مقتدی بھی سجدۂ سہو  کرے  گا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مقیم مقتدی کے لیے مسافر امام کے پیچھے سجدۂ سہو  کرنے کا وہی حکم ہے ،جو مسبوق کا حکم ہے یعنی  وہ امام کے ساتھ   سلام  پھیرے بغیر،سجدۂ سہو کرے گا۔یاد رہے  اگر اس نے جان بوجھ کر  امام کے ساتھ سلام پھیر دیا ،تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی ،اور اس کودوبارہ نماز پڑھنی ہوگی ، اور اگر بھولے سے امام کے ساتھ سلام پھیرا ،تو اس صورت میں چاہے بالکل امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو یا امام کے سلام سے پہلے یا بعد میں سلام پھیرا ہو ، بہر صورت اس کی نماز ہوجائے گی اورکسی صورت میں سجدۂ سہو  لازم نہیں ہوگا۔

   تنویر الابصار و در مختار میں ہے:”(والمسبوق يسجد مع إمامه مطلقا) سواء كان السهو قبل الاقتداء أو بعده (ثم يقضي ما فاته) ، والمقيم خلف المسافر كالمسبوق۔ ملتقطاً “اور مسبوق امام کے ساتھ مطلقاً سجدہ (سہو )کرے گا یعنی سہو چاہے اس کی اقتدا سے پہلے لاحق ہوا ہو یا بعد میں ،پھر اپنی بقیہ نماز جو رہ گئی تھی  پوری کرے گا  ۔اور مقیم مقتدی مسافر امام کے پیچھے مسبوق کی طرح ہے۔)تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 659۔660، مطبوعہ کوئٹہ(

   رد المحتار میں ہے:”قولہ:(والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود لأنه لا يتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، (قوله والمقيم إلخ) ذكر في البحر أن المقيم المقتدي بالمسافر كالمسبوق في أنه يتابع الإمام في سجود السهو ثم يشتغل بالإتمام۔ ملخصاً “صرف سجدے کے ساتھ اس لیے مقید کیا ،کیونکہ مسبوق  سلام میں امام کی متابعت نہیں کرے گا، بلکہ وہ سجدہ کرے گا اور تشہد پڑھے گا ۔ پھر جب امام (نماز سے باہر ہونے کے لیے )سلام پھیر ے ،تو مسبوق اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے گا ۔ شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول :( والمقيم إلخ)بحر میں ذکر کیا  وہ مقیم آدمی جو مسافر کی اقتدا کرے  اس مسبوق کی طرح ہے کہ سجدۂ سہو  میں امام کی متابعت کرے گا پھر وہ اپنی نماز مکمل کرنے میں مشغول ہوجائے گا۔)رد المحتار، جلد 2، صفحہ 659۔660، مطبوعہ کوئٹہ(

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے:” والمقيم خلف المسافر حكمه حكم المسبوق في سجدتي السهو “ سہو کے دونوں سجدوں میں مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی  کا حکم مسبوق کے حکم کی طرح ہے۔)فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1، صفحہ 142، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت (

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” مسبوق سلام سے مطلقاً ممنوع و عاجز ہے، جب تک فوت شدہ رکعات ادا نہ کرلے ، امام سجدۂ سہو  سے قبل یا بعد جو سلام پھیرتا ہے، اس میں اگر قصدا ًاس نے شرکت کی، تو اس کی نماز جاتی رہے گی کہ یہ سلام عمدی اس کے خلال نماز میں واقع ہوا ، ہاں اگر سہواً پھیرا، تو نماز نہ جائے گی:’’لکونہ ذکرا من وجہ ، فلایجعل کلاما من غیر قصد وان کان العمد والخطا والسھو کل ذٰلک فی الکلام سواء ، کما حققہ علماءنا رحمھم اللہ تعالیٰ ‘‘(کیونکہ یہ من وجہ ذکر ہے ،لہٰذا اسے بغیر قصد کے کلام قرار نہ دیا جائے اگر چہ عمد، خطا اور سہو کلام میں برابر ہیں۔ جیسا کہ ہمارے علماء رحمہم اﷲ تعالٰی نے اس کی تحقیق کی ہے ۔ت)۔بلکہ وہ سلام جو امام نے سجدۂ سہو  سے پہلے کیا،اگر مسبوق نے سہواً امام سے پہلے خواہ ساتھ خواہ بعد پھیرا ،تو ان صورتوں میں مسبوق پر سہو بھی لازم نہ ہوا کہ وہ ہنوز مقتدی ہے اور مقتدی پر اس کے سہو کے سبب سجدہ لازم نہیں ۔ ملخصا“)فتاویٰ رضویہ، جلد8، صفحہ 187، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم