Musafir Imam Ke Peeche Muqeem Muqtadi Ki Namaz Ka Tarika

 

مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کی نماز کا طریقہ

مجیب:ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-9011

تاریخ اجراء: 19 محرم الحرام 1446ھ/  26 جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ امام صاحب شرعی مسافرتھے جس کی وجہ سےانہوں نے چاررکعت والی نمازمیں قصرکرنی تھی،ایک رکعت ہوچکی تھی  کہ ایک مقیم  شخص نے ان کی اقتدا کی، ایک رکعت امام صاحب کے ساتھ پڑھی ،قعدہ کیا،امام صاحب نے سلام پھیردیا،اب مقیم مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعداپنی بقیہ رکعتیں کیسے اداکرے گا،اس کاطریقہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مقیم مقتدی،مسافرامام کے سلام پھیرنے کے بعدایک رکعت بغیر قراءت کے اداکرے گا،پھرالتحیات پڑھ کردوسری رکعت  کے لیے کھڑاہوگااوراسے بھی بغیرقراءت کے پڑھ کرقعدہ کرے گا، پھر اگر شروع میں(امام کے ساتھ ادا کی گئی رکعت)میں ثنانہیں پڑھی تھی،تواب تیسری رکعت میں ثناپڑھ کر تعوذ و تسمیہ، سورۃ الفاتحہ اور سورت پڑھے گا،پھر رکوع و سجود اور قعدہ کر کے نماز مکمل کر لے گا۔

   تفصیل اس  میں یہ ہے  کہ  مقیم مقتدی  اگرمسافر امام  کے  پیچھے چار رکعت  والی  نماز میں صرف ایک رکعت پڑھے، تو وہ لاحق مسبوق  کہلاتا ہےاورلاحق مسبوق کاحکم یہ ہے کہ وہ لاحق ہونے کے اعتبارسے پہلے دورکعتیں بغیرقراءت کے اداکرے گا،یعنی قیام کی حالت میں کچھ نہیں پڑھےگا،بلکہ جتنی دیرمیں سورۃ الفاتحہ پڑھی جاتی ہے،اتنی دیر خاموش کھڑارہےگا،پھرمسبوق ہونے کے اعتبارسے ایک رکعت قراءت(سورہ فاتحہ اورسورت )کے ساتھ پڑھے گا،چونکہ اس کی ایک رکعت فوت ہوئی اوردوسری رکعت میں شریک ہواتھا،تواس کوچار قعدے کرنے ہیں،جن میں التحیات بھی پڑھنی ہے،تفصیل درج ذیل ہے:

   (1)پہلاقعدہ امام کے ساتھ(2)اورپھرامام کے سلام پھیرنےکےبعدایک رکعت بلاقراءت اداکرنے کے بعد لاحق ہونے کی حیثیت سےشفع مکمل ہونے کی وجہ سے دوسراقعدہ کرے گا(3)اورپھرمزیدایک رکعت بلا قراءت پڑھنے کے بعدتیسرا قعدہ کرے گا،کیونکہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے، مگرامام کے حساب سے چوتھی ہے اورفوت ہونے والی  رکعات کوامام کی نمازکی ترتیب پرادا کرنا لاحق پرچونکہ لازم ہوتاہے،اس لیے امام کے اعتبار سے چوتھی رکعت ہونے کی وجہ سے تیسراقعدہ کرے گا۔(4)اور پھرمسبوق کی حیثیت سےامام کے ساتھ رہ جانے والی پہلی رکعت کوقراءت(سورہ فاتحہ اورسورت)کے ساتھ آخرمیں اداکرکے  قعدہ اخیرہ کرے گا جوکہ اس کی نمازمیں چوتھاقعدہ ہوگا۔

   مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کی لاحق مسبوق ہونے کی  حیثیت کے متعلق علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:”مقیم ائتم بمسافر فھو لاحق بالنظر للاخیرتین، وقد یکون مسبوقا ایضا کما اذافاتہ اول صلاۃ امامہ المسافر“ترجمہ:مقیم نے مسافر کی اقتدا کی،تو وہ آخری رکعتوں کے اعتبار سے لاحق ہے اورکبھی وہ مسبوق بھی ہوسکتاہے،جیسا کہ اس صورت میں جب مقیم کی مسافر امام کے  ساتھ پہلی رکعت فوت ہو گئی ہو۔(درمختارمع ردالمحتار،جلد01،صفحہ594،مطبوعہ دارالفكر بيروت)

   لاحق مسبوق   کی  بقیہ رکعتوں کی  ادائیگی   کی  تفصیل  کے متعلق درمختار،بدائع الصنائع،مبسوط سرخسی وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے:و اللفظ للاول:”اللاحق یبدأ بقضاء مافاتہ بلاقراء ۃ ثم ماسبق بہ بھا ان کان مسبوقا ایضا “ ترجمہ:لاحق پہلے فوت شدہ رکعات بغیر قراءت کے ادا کرے،پھر وہ رکعات جو امام کے ساتھ رہ گئی تھیں(ان کو ادا کرے گا)جب کہ  وہ مسبوق بھی  ہو۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد01، صفحہ595، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) ”ماسبق بہ بھا“کے تحت لکھتے ہیں:”قولہ الخ ای ثم صلی اللاحق ماسبق بہ بقراءة ان کان مسبوقا ایضا بان اقتدی فی اثناء صلاۃ الامام ثم نام مثلا وھذا بیان للقسم الرابع وھو المسبوق اللاحق الخ“یعنی اگرمسبوق، لاحق ہے، توقراءت کے ساتھ سابقہ رکعات اداکرے،مثلاً :اس نے امام کے ساتھ دوران نماز اقتدا کی، پھرسوگیا اوریہ چوتھی قسم کابیان ہے، جومسبوق لاحق  کے متعلق ہے۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد01، صفحہ595، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)

   مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کی رکعتیں رہ جائیں ،تو اس کے حکم شرعی کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے:”یہ صورت مسبوق لاحق کی ہے،وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافرسے ساقط ہیں،مقیم مقتدی لاحق ہے۔”لانہ لم یدرکھما مع الامام بعد ما اقتدی بہ“اوراس کے شریک ہونے سے پہلے ایک رکعت یادونوں جس قدر نماز ہوچکی ہے،اس میں مسبوق ہے۔”لانھا فاتتہ قبل ان یقتدی“اورحکم اس کایہ ہے کہ جتنی نمازمیں لاحق ہے،پہلے اسے بے قراء ت اداکرے،یعنی حالت قیام میں کچھ نہ پڑھے،بلکہ اتنی دیرکہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش کھڑا رہے۔بعدہٗ جتنی نماز میں مسبوق ہوا،اسے مع قراءت یعنی فاتحہ وسورت کے ساتھ ادا کرے،پس اگردونوں رکوع نہ پائے تھے،تو پہلے دورکعتیں بلاقراءت پڑھ کربعدالتحیات دورکعتیں فاتحہ وسورت سے پڑھے، اوراگرایک رکوع نہ ملاتھا،توپہلے ایک رکعت بلاقراءت پڑھ کر بیٹھے اورالتحیات پڑھے،کیونکہ یہ اس کی دوسری ہوئی،پھرکھڑاہوکرایک رکعت اور ویسی ہی بلاقراءت پڑھ کراس پربھی بیٹھے اورالتحیات پڑھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے، مگرامام کے حساب سے چوتھی ہے اور رکعات فائتہ کو نماز امام کی ترتیب پراداکرناذمہ لاحق لازم ہوتاہے۔پھرکھڑاہوکرایک رکعت بفاتحہ وسورت پڑھ کربیٹھے اوربعدتشہدنمازتمام کرے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد7، صفحہ 238، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لاحق مسبوق نے اگر پہلے ثناء نہ پڑھی تھی،آخری رکعت میں پڑھے،چنانچہ اس کے متعلق مفتی جلال الدین امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1422ھ/2001ء) لکھتے ہیں:’’بکرلاحق مسبوق ہے امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب کھڑا ہوا، تو قیام میں کچھ نہ پڑھے، بلکہ سورۂ فاتحہ پڑھنے کی مقدار خاموش کھڑا رہے، پھر رکوع و سجدہ سے فارغ ہو کر التحیات پڑھے کہ یہ اس کی دوسری رکعت ہوئی، پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور ویسی ہی بلاقراءت پڑھے اور پھر التحیات کے لیے بیٹھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے ،مگر امام کے حساب سے چوتھی ہےاورپھر کھڑا ہو کر ثناء پڑھے اگر پہلے نہیں پڑھی اور تعوذ و تسمیہ سورۂ فاتحہ اور سورت پڑھے ،پھر رکوع سجدہ اور تشہد کے بعد نماز پوری کرے۔‘‘(فتاوی فیض رسول ،جلد1،صفحہ373،مطبوعہ اکبر بک سیلرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم