مجیب: مولانا محمد نوید چشتی
عطاری
فتوی نمبر:WAT-2249
تاریخ اجراء: 22جمادی الاول1445 ھ/07دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں وہ مقتدی
مسبوق لاحق کہلائے گا ، لہذا پہلے لاحق
ہونے کی حیثیت سے اپنی
دو رکعت بغیر قراءت کیے پوری کرے گا،یعنی قیام
کی حالت میں کچھ نہ پڑھےبلکہ اتنی دیرکہ سورہ فاتحہ پڑھی
جائے ،محض خاموش کھڑارہے ۔
پھر مسبوق ہونے کے اعتبار سے فوت شدہ ایک رکعت پڑھے گا، جس میں قراءت بھی
کرے گا۔(یعنی فاتحہ وسورت بھی پڑھے گا۔)
نیزایک رکعت فوت ہوئی
ہے اور دوسری رکعت میں شریک ہوا ہے، تو اس کو چار قعدے کرنے ہیں،جن
میں التحیات پڑھنی ہے ،جن کی تفصیل درج ذیل
ہے:
(الف) پہلا قعدہ امام کے ساتھ ۔(ب)اور
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت بلا قراءت کے بعد شفعہ مکمل
ہونے کی وجہ سے دوسرا قعدہ ۔(ج) اور پھر ایک رکعت بلا قراءت کے
بعد تیسرا قعدہ، کیونکہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری
ہے، مگرامام کے حساب سے چوتھی ہے اورفوت ہونے والی رکعات کو
امام کی نمازکی ترتیب پر ادا کرنا لاحق پر لازم ہوتا ہے ۔(د)
اور پھر قراءت کے ساتھ چوتھی رکعت اداکر کے چوتھا قعدہ کرنا ہےاورتشہدپڑھ کر
نماز مکمل کرنی ہے ۔حاصل یہ کہ اِس مقتدی کو ہر رکعت پر
قعدہ کرنا ہے۔
امام اہل سنت اعلی حضرت مجدد
دین و ملت امام احمد رضا خان قدس سرہ مسافر امام کے پیچھے ایک یا
دونوں رکوع چھوٹ جانے کی صورت کا حکم بیان کرتے ہوئے تحریر
فرماتے ہیں:
"یہ صورت مسبوق لاحق کی
ہے، وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافر سے ساقط ہیں، مقیم مقتدی
لاحق ہے۔” لانہ لم یدرکھما
مع الامام بعد ما اقتدی بہ“۔ اور اس کے شریک ہونے سے
پہلے ایک رکعت یادونوں جس قدر نماز ہوچکی ہے ،اس میں
مسبوق ہے۔”لانھا
فاتتہ قبل ان یقتدی“ درمختار و ردالمحتارمیں ہے:”مقیم ائتم بمسافر فھو لاحق
بالنظر للاخیرتین، وقد یکون مسبوقا ایضا۱ھ کما
اذافاتہ اول صلاۃ امامہ المسافر“اور حکم اس کا یہ ہے کہ جتنی نماز میں
لاحق ہے پہلے اسے بے قراء ت ادا کرے، یعنی حالت قیام میں
کچھ نہ پڑھے، بلکہ اتنی دیر کہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش
کھڑا رہے۔ بعدہ، جتنی نماز میں مسبوق ہوا ، اسے مع قراء ت یعنی
فاتحہ وسورت کے ساتھ ادا کرے۔”فی الدر المختار : اللاحق یبدأ بقضاء مافاتہ بلاقراء ۃ
ثم ماسبق بہ بھا ان کان مسبوقا ایضا ۔ ۱ھ ملخصا“رد المحتارمیں
ہے: ”قولہ ماسبق بہ بھا
الخ ای ثم صلی اللاحق ماسبق بہ بقراءة ان کان مسبوقا ایضا بان
اقتدی فی اثناء صلاۃ الامام ثم نام مثلا وھذا بیان للقسم
الرابع وھو المسبوق اللاحق الخ“پس اگردونوں رکوع نہ پائے تھے تو پہلے دو رکعتیں
بلاقرأت پڑھ کر بعد التحیات دو رکعتیں فاتحہ و سورت سے پڑھے، اور اگر
ایک رکوع نہ ملا تھا تو پہلے ایک رکعت بلاقراءت پڑھ کر بیٹھے
اور التحیات پڑھے کیوں کہ یہ اس کی دوسری ہوئی،
پھر کھڑا ہوکر ایک رکعت اور ویسی ہی بلاقراءت پڑھ کر اس
پربھی بیٹھے اور التحیات پڑھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی
تیسری ہے، مگرامام کے حساب سے چوتھی ہے اور رکعات فائتہ کو نماز
امام کی ترتیب پر ادا کرنا ذمہ لاحق لازم ہوتا ہے ۔ پھر کھڑا
ہوکر ایک رکعت بفاتحہ وسورت پڑھ کر بیٹھے اور بعد تشہد نماز تمام کرے۔ ”فی ردالمحتار عن شرحی
المنیۃ والمجمع انہ لوسبق برکعۃ من ذوات الاربع ونام فی
رکعتین یصلی اولا ما نام فیہ ثم ما ادرکہ مع الامام ثم
ماسبق بہ فیصلی رکعۃ مما نام فیہ مع الامام ویقعد
متابعۃ لہ لانھا ثانیۃ امامہ ثم یصلی الاخری
مما نام فیہ ویقعد لانھا ثانیتہ ثم یصلی التی
انتبہ فیھا و یقعد متابعۃ لامامہ لانھا رابعۃ و کل ذلک بغیرقراءۃ
، لانہ مقتد ثم یصلی الرکعۃ التی سبق بھا بقراءۃ
الفاتحۃ وسورۃ، والاصل ان اللاحق یصلی علی ترتیب
صلاۃ الامام، والمسبوق یقضی ماسبق بہ بعد فراغ الامام ۔ ۱ھ“اقول:
فھذہ ھی الصورۃ المسؤل عنہا بید ان ما نحن فیہ اعنی
اقتداء المقیم بالمسافر لا یتحقق فیہ الادراک بعد ماصار لاحقا ،
لانہ انما یصیر لاحقا فی الاخیرتین ، وذلک انما یکون
بعد سلام الامام فلا تتأتی ھنا صورۃ المتابعۃ بعد اداء ماھو
لاحق فیہ کمالایخفی ولذٰلک تغیر بعض الترتیب۔“(فتاوی رضویہ، ج7،
ص238، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟