Musafir Iaday Mein Char Rakat Parhay Ga Ya Do Rakat?

مسافر اعادے میں چار رکعت پڑھے گا یا دو رکعت؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر:Nor-12668

تاریخ اجراء:17جمادی الاخری1444ھ/10جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قصر نہ کرنے کی بنا پر اگر مسافر کی نماز واجب الاعادہ ہوجائے، تو اب وہ اعادے میں چار رکعات پڑھے یا دو رکعات؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مسافر کا قصر نہ کرنا ترک واجب تھا اس کمی کو پورا کرنے کے لیے نماز کا اعادہ ضروری ہے ۔ البتہ مسافر اب اعادےکے طور پر دو رکعات ادا کرے  گا۔

   علامہ شامی علیہ الرحمہ فتاوٰی  شامی میں اعادے کی تعریف نقل فرماتے ہیں:الاعادۃ فی عرف الشرع اتیان بمثل الفعل الاول علی صفۃ الکمال بان وجب علی المکلف فعل موصوف بصفۃ الکمال فاداہ علی وجہ النقصان، وھو نقصان فاحش یجب علیہ الاعادۃ، وھو اتیان مثل الاول ذاتاً مع صفۃ الکمال۔“یعنی عرفِ شرع میں اعادہ سے مراد یہ ہے کہ پہلے والے فعل ہی کی مثل دوسرے فعل کو کامل طور پر بجالائے، وجہ اس کی یہ ہے کہ مکلف پر تو یہ واجب تھا کہ وہ اس فعل کو کامل طور پر ادا کرتا لیکن اس نے ناقص طور پر ادا کیا، اور وہ نقص بھی اتنا زیادہ تھا کہ اس پراس فعل کا  اعادہ واجب ہوا، لہذا اعادہ پہلے فعل ہی کی مثل کو کامل طور پر ادا کرنے کا نام ہے ۔(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلاۃ،  ج 02، ص 629، مطبوعہ کوئٹہ)

   مسافر نے جان بوجھ کرچار رکعات ادا کیں تو اعادہ لازم ہونے کے متعلق بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:”اذا صلی اربعاً متعمّداً اعادھا “ یعنی جب(مسافر)جان بوجھ کر چاررکعتیں اداکرے،تو اس نمازکااعادہ کرے۔(البنایۃ شرح الھدایۃ،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،ج03،صفحہ 246،مطبوعہ ملتان)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:”جس پرشرعاً قصر ہےاور اس نےجہلاً (پوری)پڑھی ،اس پر مواخذہ ہےاور اس نماز کاپھیرناواجب ۔“(فتاویٰ رضویہ ،کتاب الصلاۃ ،صلاۃ المسافر،ج08،ص 270، رضافاؤنڈیشن ، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم