مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:Nor-13285
تاریخ اجراء:11شعبان المعظم1445 ھ/22فروری 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں
علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ مسافر اگر
بھولے سے دو کے بجائے
چار رکعت عشاء فرض کی نیت کرلے، پھر یاد آنے پر کہ میں تو مسافر ہوں دو
رکعت ہی پر سلام پھیر
کر نماز مکمل کرے، تو کیا
اس صورت میں مسافر کی عشاء کی
نماز درست ادا ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! پوچھی گئی صورت
میں مسافر کی نمازِ عشاء درست ادا ہوجائے گی۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ نیت میں رکعات کی تعداد کو معین
کرنا ضروری نہیں، پس اگر نمازی سے رکعات کی تعداد
میں غلطی واقع ہوجائے تب بھی وہ نماز درست ادا
ہوگی۔ مزید یہ کہ مسافر کا دو کے بجائے چار رکعات کا
نیت کرنا ، یہ مشروع کو بدلنے کی نیت ہے، اور مشروع کو
بدلنے کی نیت لغو ہوتی ہے ، اس کا کوئی اعتبار نہیں
ہوتا، اس صورت میں بھی مسافر پر دو فرض ہی لازم رہیں گے۔
جیسا کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق نمازی پر سجدہ
سہو واجب ہو اور وہ نماز ختم کرنے کے ارادے سے سلام پھیردے جبکہ اُسے سہو
ہونا یاد نہ رہے تو اُس کی یہ نیت لغو ہوگی، اور اس
پر واجب ہوگا کہ سجدہ سہو کرکے اپنی وہ نماز مکمل کرے۔ اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں اُس مسافر
شخص نے عشاء کی دو رکعات ہی ادا کی ہیں، لہذا اُس
کی وہ نمازِ عشاء درست ادا ہوئی ہے۔
نیت میں رکعتوں کی تعداد معین کرنا شرط
نہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار وغیرہ کتبِ
فقہیہ میں ہے:”(دون)تعیین
(عدد رکعاتہ)لحصولھا ضمناً، فلا یضر الخطاء فی عددھا۔
“یعنی رکعتوں
کی تعداد معین کرنا نیت میں شرط نہیں کہ یہ
ضمناً ہی حاصل ہے، پس رکعات کی تعداد میں غلطی ہونا نمازی
کو نقصان نہیں دے گا۔(تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 121-120،
مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے:”نیت میں تعداد
رکعات کی ضرورت نہیں البتہ افضل ہے، تو اگر تعداد رکعات میں خطا
واقع ہوئی مثلاً تین رکعتیں ظہر یا چار رکعتيں مغرب
کی نیت کی، تو نماز ہو جائے گی۔“(بہار شریعت،ج01،ص494، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مشروع کو بدلنے کی نیت لغو
ہے۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار وغیرہ کتبِ
فقہیہ میں ہے:”(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه)۔ “یعنی مسافر نے اگر پوری چار رکعات پڑھ دیں تو اگر
اُس نے قعدہ اولیٰ کیا تھا تو مسافر کے فرض ادا ہوگئے۔
(إن قعد إلخ)کے تحت رد المحتار میں ہے:”وأطلقه فشمل ما إذا نوى أربعا أو ركعتين خلافا لما أفاده في الدرر من اشتراط
النية ركعتين لما في الشرنبلالية من أنه لا يشترط نية عدد الركعات
ولما صرح به الزيلعي في باب السهو من أن الساهي لو سلم للقطع يسجد لأنه نوى
تغيير المشروع فتلغو، كما لو نوى الظهر ستا أو نوى مسافر الظهر
أربعا أفاده أبو السعود عن شيخه ۔ “ یعنی اس مسئلے کو مطلق بیان کیا ہے یہ اس
صورت کو بھی شامل ہے کہ جب مسافر نے ابتداءً ہی چار رکعات کی
نیت سے نماز ادا کی ہو یا اُس نے دو رکعات کی نیت
کی ہو، برخلاف اس کے جو بات صاحبِ درر نے کی کہ مسافر پر دو رکعات
کی نیت کرنا شرط ہے۔ اطلاق کی وجہ یہ ہے کہ شرنبلالیہ
میں ہے کہ نمازی کے لیے رکعات کی تعداد کی
نیت کرنا کوئی شرط نہیں، اسی بات کی صراحت امام
زیلعی علیہ الرحمہ نے سہو کے باب میں کی ہے کہ جس
پر سجدہ سہو واجب ہو وہ اگر نماز ختم کرنے کے ارادے سے سلام پھیردے تب
بھی حکمِ شرع یہی ہے کہ وہ سجدہ سہو کرے کہ اُس نے جو نیت
کی ہے وہ مشروع کو بدلنے کی ہے جو کہ لغو ہے، یہ ایسا
ہی ہے جیسے کوئی شخص ظہر کی نماز چھ رکعات کی
نیت سے یا مسافر ظہر کی نماز چار رکعات کی نیت سے
ادا کرے(تو اس کی یہ نیت لغو ہوگی)، ابو سعود علیہ
الرحمہ نے اپنے شیخ سے اسی بات کو بیان کیا ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 733، مطبوعہ کوئٹہ)
تبیین الحقائق
میں ہے:”(ويسجد للسهو، وإن سلم للقطع) معناه أنه يجب عليه أن يسجد للسهو، وإن أراد
بالتسليم قطع الصلاة؛ لأن نيته تغير المشروع فتلغو كما لو نوى الظهر ستا أو
نوى المسافر الظهر أربعاً۔ “یعنی نمازی سجدہ سہو کرے اگرچہ اُس نے نماز ختم کرنے کے
ارادے سے سلام پھیردیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس نمازی
پر واجب ہے کہ وہ سہو کے سجدے کرے اگر چہ سلام پھیرنے سے اُس کا نماز ختم
کرنے کا ارادہ ہو، کیونکہ اُس نمازی کی یہ نیت
مشروع کو بدلنے کی نیت ہے جو کہ لغو ہے، جیسا کہ کوئی شخص
ظہر کی نماز چھ رکعات کی نیت سے یا مسافر ظہر کی
نماز چار رکعات کی نیت سے ادا کرے (تو اس کی یہ نیت
ہی لغو ہوگی)۔(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، کتاب
الصلاۃ، ج 01، ص 199، دار الكتاب الإسلامي)
بنایہ شرح الھدایہ میں ہے:”نوى المسافر أربعا تلغو نيته، كذا في " المبسوط "۔ “یعنی مسافر اگر چار رکعت کی نیت کرے تو اس
کی نیت لغو ہوگی، جیسا کہ مبسوط میں ہے۔(البناية شرح الهداية، کتاب
الصلاۃ، ج 02، ص 629، دار الكتب العلمية،
بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟