Muqtadi Sana Ke Baad Taawuz o Tasmiya Parhe Ga Ya Nahi ?

مقتدی ثناء کے بعد تعوذ و تسمیہ پڑھے گا یا نہیں ؟اگر پڑھ لے ، تو کیا نماز ہوجائے گی ؟

مجیب:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Kan-15067

تاریخ اجراء:26ذوالحجۃالحرام1441ھ/17اگست2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیا مقتدی   ثنا ءکے بعدتعوذوتسمیہ(اعوذباللہ اوربسم اللہ) بھی پڑھے گا  یا نہیں ؟ اگر پڑھ لے،تو کیا اس کےنماز ہو جائےگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امام اورمنفرد(یعنی تنہانماز پڑھنےوالے) کےلیے  ثناء کے بعد،قراء ت سے پہلے تعوذ وتسمیہ  پڑھنا سنت ہے ،جبکہ مقتدی کے لیے امام کےپیچھے تعوذوتسمیہ پڑھنا سنت نہیں ،کیونکہ  تعوذوتسمیہ قراءت کے تابع ہیں اورمقتدی پرقراءت نہیں، لہذا مقتدی تعوذ وتسمیہ نہیں  پڑھے  گا ۔

   یاد رہے کہ جب امام جہراً(بلند آواز سے )قراءت نہ کر رہا ہو،تواس وقت مقتدی کا  تعوذ وتسمیہ پڑھنا  فقط خلاف سنت قرار پائے گا اور اگر امام نے جہراً قراءت شروع کر دی ،تو  اب مقتدی کےلیے  تعوذ وتسمیہ  پڑھنا جائز ہی نہیں ہو گا، جس طرح  جہری قراء ت شروع ہونے پر مقتدی کے لیے ثناء  پڑھنا جائز نہیں ہے،کیونکہ اب اس پر خاموشی سے تلاوت سننا واجب ہے۔ہاں مسبوق امام کےسلام کےبعد جب اپنی فوت شدہ رکعت  پڑھے،تو  اب  اس پر قراءت لازم ہے ،لہذا اب اس کےلیے قراءت سےپہلے تعوذوتسمیہ پڑھنا سنت ہوگا۔

   کنزالدقائق میں ہے:’’وتعوذ سرا للقراءۃ  فیأتی  بہ المسبوق لاالمقتدی‘‘ اورقراءت کےلیے آہستہ آواز میں  تعوذ پڑھے،مسبوق تعوذ پڑھےگا ،مقتدی نہیں پڑھے گا۔

   کنز کی مذکورہ بالاعبارت کے تحت بحرالرائق میں ہے:’’یعنی أن التعوذ سنۃ القراءۃ  فیأتی بہ کل قاریءللقرآن  لأنہ شرع لھا صیانۃ  عن وساوس  الشیطان  فکان تبعا لھا ‘‘یعنی تعوذ قراءت کی سنت ہے  ،پس قرآن پڑھنے والاہر شخص  تعوذ پڑھے  گا کیونکہ  تعوذ شیطانی وساوس   سے حفاظت کےلیے مشروع ہے، لہذا یہ قراءت کےتابع ہو  گئی۔(کنزالدقائق مع بحرالرائق ،جلد1،صفحہ538تا542،مطبوعہ کوئٹہ)

   حلبی کبیر میں ہے :’’عندأبی حنیفۃ ومحمد التعوذ تبع  للقراءۃ فکل من یقرأ یأتی  بہ لأن شرعیتہ لھا قال تعالیٰ: ﴿فإذا قرأت القرآن  فاستعذباللّٰہ ﴾الآیۃفلایأتی بہ المقتدی لأنہ لا یقرأ بخلاف الإمام والمنفرد‘‘امام اعظم اورامام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک  تعوذ قراءت کےتابع ہے ،تو ہر وہ شخص جو قراءت کرے  تعوذ پڑھے ،کیونکہ  تعوذ قراءت کےلیے مشروع ہوئی  ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’توجب تم  قرآن پڑھو تواللہ  کی پناہ مانگو ‘‘ پس مقتدی تعوذ نہیں پڑھےگا،کیونکہ وہ قراءت نہیں کرتا بخلاف امام اورمنفرد کے۔‘‘(حلبی کبیر،صفحہ304،مطبوعہ لاھور)

   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  سے سوال ہواکہ ’’مقتدی کوسبحٰنک اللھم  پڑھنے کے بعد  اعوذباللہ من الشیطن الرجیم   پڑھناچاہئے یا نہیں ؟

   صدرالشریعہ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشادفرمایا : ’’مقتدی کےلیے صرف  سبحٰنک اللھم   پڑھنا ہے ،  اعوذباللہ  تابعِ قراءت  ہے اورمقتدی  پر قراءت  نہیں ،یونہی بسم اللہ  ،درمختار میں ہے:’’وتعوذ لقراءۃ لا المقتدی لعدمھا وکماتعوذسمی غیرالمؤتم‘‘ ہاں مسبوق  یعنی جس  مقتدی کی کوئی رکعت جاتی  رہی ،جب وہ اپنی پڑھے، تو اعوذباللہ اوربسم اللہ پڑھے کہ  اب اس کے ذمہ قراءت ہے۔(فتاویٰ امجدیہ ،جلد1،صفحہ 72،71،مکتبہ رضویہ ،کراچی)

   امام کی جہری قراء ت شروع ہونے کے بعد مقتدی کے لیے ثناء پڑھنا جائز نہیں، یہ حکم بیان کرتے ہوئے فتاویٰ ہندیہ میں ہے:’’إذا أدرک الإمام فی القراءۃ فی الرکعۃ التی یجھرفیھا لا یأتی  بالثناء کذا فی الخلاصۃ ھو الصحیح کذا فی التجنیس وھو الأصح  ھکذا فی الوجیز للکردری سواء کان قریباأوبعیداأولایسمع لصممہ ھکذافی الخلاصۃ  ‘‘مسبوق جب امام کو  جہری نماز میں قراءت کرتے ہوئے پائےتو  ثنا نہ پڑھے  ،اسی طرح خلاصہ میں ہے اوریہی صحیح ہے ،اسی طرح تجنیس میں ہے اوریہی اصح ہے ،اسی طرح امام کردری  کی وجیز میں  ہے  ۔خواہ  وہ قریب ہو یا دوریا بہرہ ہونے کی وجہ سے نہ سن رہا ہو،اسی طرح خلاصہ میں ہے ۔ (فتاویٰ ھندیہ ،جلد1،صفحہ 91،90،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم