فتوی نمبر:FSD -9052
تاریخ اجراء: 16صفر المظفر1446ھ/22اگست 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلےکے بارے میں کہ اگر کوئی امام کے پیچھےنمازپڑھےاورامام سلام پھیرے،تومقتدی کےلیےسلام پھیرنے کا صحیح طریقہ کیاہےکہ کس وقت سلام پھیرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانین شریعت کے مطابق جو مقتدی شروع نماز سے اما م کے ساتھ شریک ہو، اس کے لیے سلام پھیرنےکاافضل طریقہ تویہی ہےکہ وہ بالکل امام کےساتھ ساتھ سلام پھیرے،یعنی جیسےامام ”السلام علیکم ورحمۃاللہ“کہتے ہوئے ایک طرف اپنا چہرہ پھیرنا شروع کرے،تو مقتدی بھی بالکل ساتھ ساتھ سلام پھیرنا شروع کر دےاور اسی طریقےپر امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقتدی کو عمل کرنے کا حکم ہے،البتہ اگرکسی نے امام کے مکمل سلام پھیر لینےکے بعد سلام پھیرا،توبھی درست ہے۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مقتدی کےلیے متابعتِ امام تین طرح کی ہے ،فعلِ امام سےمقارنت مثلاً:امام کی تکبیر تحریمہ کےساتھ تکبیرتحریمہ کہے،اس کےرکوع کےساتھ رکوع کرے اورسلام کےساتھ سلام پھیرے اور یہی مقارنت کا اصل مفہوم ہے کہ مقتدی کے ہر رکن کی ابتدا امام کی ابتدا کے ساتھ اور ہر رکن کا اختتام امام کے رکن کے اختتام کے ساتھ ہو،اسی مقارنت کو فقہائےکرام نے افضل قرار دیا ہے،البتہ اگرکسی نے امام کے سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرا، تو یہ بھی درست ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی دو روایتوں میں سے اصح روایت کے مطابق سلام کا مسئلہ تکبیر تحریمہ والے مسئلے کی طرح ہے اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ میں افضل ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہے ۔اگر امام کے تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد تکبیر کہی، تو اگرچہ افضل نہیں لیکن یہ بھی درست ہے ،اسی طرح سلام والے مسئلے میں بھی یہی حکم ہوگا یعنی امام کےساتھ ساتھ سلام پھیرے، تو اس کو افضل طریقہ کہا جائے گا، لیکن اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرے ،تو بھی درست ہے ۔
امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ(سالِ وفات:256ھ/869ء) باب "مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیرے گا " کے تحت حضرت ابن عمر اور عتبان بن مالک رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرماتے ہیں:’’كان ابن عمر: يستحب اذا سلم الإمام، ان يسلم من خلفه۔۔۔عن عتبان بن مالك قال: صلينا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فسلمنا حين سلم“ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرے،تومقتدی بھی سلام پھیردیں ۔۔۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ سےمروی ہے،کہتےہیں کہ ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ نماز پڑھی،جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا،تو ہم نے سلام پھیرا ۔ (صحیح البخاری ،جلد 1،صفحہ 288 ،مطبوعہ دار ابن كثير، دمشق)
مذکورہ باب اور اثر پر کلام کرتے ہوئے شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’ مطابقته للترجمة ظاهرة،وقيل: غير ظاهرة، لأن المفهوم من الترجمة ان يسلم المأموم مع الإمام، لأن سلامه اذا كان حين سلام الإمام يكون معه بالضرورة، والمفهوم من الأثر ان يسلم المأموم عقيب صلاة الإمام، لأن كلمة: اذا، للشرط، والمشروط يكون عقيبه، قلت: لا نسلم ان: اذا، ههنا للشرط، بل هی ههنا على بابها لمجرد الظرف، على انه هو الأصل، فحينئذ يحصل التطابق بين الترجمة والأثر“ ترجمہ :’’اثر “کی مطابقت ترجمۃ الباب سے بالکل واضح ہے۔ایک قول یہ ہے کہ مطابقت واضح نہیں، کیونکہ ترجمۃ الباب سے یہ سمجھ آرہا ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیرے، کیونکہ جب امام سلام پھیرے تو بدیہی طور مقتدی کا سلام بھی امام کے ساتھ ہونا چاہیے جبکہ’’ اثر “ سے یہ سمجھ آرہا ہے کہ مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرے ،کیونکہ اثر میں ”اذا " ہے جو بظا ہر شرط کے لیے ہے اور مشروط کا تحقق شرط کے بعد ہوتا ہے(تویوں باب اور اثر میں مطابقت نہ ہوئی ،علامہ عینی ان دونوں کے درمیان مطابقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ) میں(علامہ عینی ) کہتا ہوں کہ ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ ’’اذا“یہاں شرط کے لیے ہے بلکہ’’اذا“یہاں اس باب میں اپنے اصلی معنی یعنی ظرف کے لیےہے ۔ تو اب ترجمۃ الباب اور اثر کے درمیان مطابقت حاصل ہوجائے گی۔(یعنی معنی یہ ہوگا کہ جس وقت امام سلام پھیرے،تو مقتدی بھی اسی وقت اس کے ساتھ سلام پھیریں۔)( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، جلد6، صفحہ122، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)
نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:’’جس وقت امام سلام پھیرے مقتدی بھی اسی وقت اس کے ساتھ سلام پھیریں۔ مقارنت مستحب ہے۔‘‘(نزھۃ القاری شرح بخاری ، جلد 2،صفحہ 488 ،مطبوعہ فرید بک سٹال،لا ھور )
متابعت امام تین طرح کی ہے، جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252 ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’الحاصل ان المتابعۃ فی ذاتھا ثلثۃ انواع مقارنۃ لفعل الامام مثل ان یقارن احرامہ لاحرام امامہ ورکوعہ لرکوعہ وسلامہ لسلامہ“ترجمہ:حاصل یہ ہے کہ متابعتِ امام کی تین قسمیں ہیں،امام کےفعل سےمقارنت،مثلاً:امام کی تکبیرتحریمہ کےساتھ تکبیر تحریمہ کہے،اس کے رکوع کے ساتھ رکوع کرے اور اس کے سلام کےساتھ سلام پھیرے۔ (ردالمحتار ، جلد2، صفحہ204، مطبوعہ کو ئٹہ )
اور مقارنت کا اصل مفہوم کیا ہے،اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے ہیں:’’فسر قاضی خان المقارنة بأن تكون بداءته عند بداءته وختمه عند ختمه“ ترجمہ :امام قاضی خان نے ’’مقارنت “کی تفسیر یہ کی کہ مقتدی (کے رکن )کی ابتداامام کی ابتدا کے ساتھ ہو اور مقتدی کے (رکن ) کا اختتام امام کے ( رکن کے ) اختتام کے ساتھ ہو ۔(بحر الرائق،کتاب الصلاۃ ، جلد 1، صفحہ 322،مطبوعہ دار الكتاب الإسلامی)
شیخ الاسلام و المسلمین اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340 ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’تحقیق مقام یہ ہے کہ متابعتِ امام جومقتدی پرفرض میں فرض ہے، تین صورتوں کوشامل، ایک یہ کہ اس کاہرفعل،فعلِ امام کےساتھ کمال مقارنت پرمحض بلافصل واقع ہوتارہے،یہ عین طریقہ مسنونہ ہےاورہمارےامام اعظم رضی اللہ عنہ کےنزدیک مقتدی کو اسی کاحکم ۔“(فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ 274، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مذکور جزئیہ میں امام اہلسنت رحمۃاللہ علیہ کےان الفاظ’’اس کاہرفعل فعل امام کے ساتھ کمال مقارنت پرمحض بلافصل واقع ہوتارہے“ میں مقارنت کا یہی مفہوم مراد ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ ساتھ ہر فعل بجا لائے یعنی مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ ساتھ سلام پھیریں اور مقارنت کے اس معنی ومفہوم کی تائید اوپر ذکر کردہ کلمات ِ فقہا سے بالکل واضح ہے ۔
سلام والے مسئلہ کو فقہائے کرام نے تکبیر تحریمہ والے مسئلہ پر قیاس کیا ،جیساکہ علامہ شیخی زادہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1078ھ/1667ء) لکھتے ہیں:’’( يسلم) المصلی (عن يمينه مع الإمام) كما فی التحريمة وعندهما بعده وهو رواية عن الإمام“ترجمہ :مصلی یعنی مقتدی دائیں طرف اپنے امام کے ساتھ سلام پھیرے جیسے تکبیر تحریمہ امام کے ساتھ کہی تھی ۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ،جلد 1،صفحہ 102 ،مطبوعہ دار إحياء التراث العربي ، بيروت)
علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:’’والسلام مثل التحريمة من حيث المقارنة على اصح الروايتين عن الإمام“ ترجمہ : امام اعظم کی دو روایتوں میں سے اصح روایت کے مطابق سلام کا مسئلہ مقارنت کی حیثیت سے تکبیر تحریمہ والے مسئلے کی طرح ہے ۔(یعنی مقتدی امام کے ساتھ اسی طرح سلام پھیرے جیسے اُس کے ساتھ تکبیرِ تحریمہ کہی تھی۔)(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ258 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
اور تکبیر تحریمہ میں افضل یہ ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہے ،جیساکہ علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’ الأفضل فی تكبيرة الافتتاح فی حق المقتدی أن تكون تكبيرة مع تكبير الإمام عند أبی حنيفة“ترجمہ : امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے حوالے سے مقتدی کے حق میں افضل یہ ہے کہ اس کی تکبیر تحریمہ امام کی تکبیر تحریمہ کے ساتھ ہو ۔ (المحیط البرھانی، جلد1، صفحہ295 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
علامہ محمد بن ابراہیم حلبی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:956ھ/1049ء) لکھتے ہیں:’’والافضل ان تكون تكبيرة المقتدی مع تكبيرة الامام لا بعدهاعند أبی حنيفة لأن فيه مسارعة إلى العبادة وفيه مشقة فكان افضل وقالا يكبر أی الأفضل أن يكبر المقتدی بعد تكبيرة الإمام ولا خلاف فی صحة كل من الامرين من غير كراهة“ترجمہ:امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ مقتدی کی تکبیرتحریمہ،امام کےساتھ ہو،اس کےبعدنہ ہو،کیونکہ اِس میں عبادت کی طرف جلدی کرناہے ،نیزاس میں کچھ مشقت بھی ہے،لہذایہ افضل ہے۔صاحبین نےفرمایا:افضل یہ ہے کہ مقتدی امام کی تکبیر کے بعدتکبیر کہے۔البتہ دونوں طریقوں کے،بغیر کسی کراہت کے صحیح ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحہ 72، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیہ )
تکبیر تحریمہ امام کے ساتھ ہو یا اس کے بعد ،دونوں طریقے ہی جائز ہیں ،اختلاف صرف افضلیت میں ہے ،جیساکہ علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء)’’ منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک“ میں لکھتےہیں:’’(الأفضل مقارنة الإمام فی التكبير) هذا عند أبی حنيفة، وعندهما: يكبر بعد تكبيرة الإمام، قيل: الاختلاف فی الجواز، والأصح أنه فی الأفضلية“ ترجمہ :امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک افضل یہ ہے کہ مقتدی امام کی مقارنت کرے یعنی اس کےساتھ تکبیر کہے ۔صاحبین کے نزدیک افضل یہ ہے کہ امام کی تکبیر کے بعد تکبیر کہے ۔ایک قول یہ ہے کہ اختلاف جواز میں ہے ۔لیکن اصح قول یہ ہے کہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے ۔(منحۃ السلوک شرح تحفقۃ الملوک ،صفحہ 124 ،مطبوعہ قطر )
اگر امام کے بعد تکبیر تحریمہ کہی تو بھی درست ہے، جیساکہ ’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ‘‘میں ہے:’’إذا كان إحرامه بعد إحرام إمامه فمتفق عليه“ترجمہ :جب مقتدی کی تکبیر تحریمہ امام کی تکبیر تحریمہ کے بعدہو، تو اس پر سب متفق ہیں (یعنی یوں بھی درست ہے)۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الصلوۃ ، صفحہ258، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟