Muqtadi Ke Liye Kab Salam Pherna Sunnat Hai?

مقتدی کے لیے کب سلام پھیرنا سنت ہے؟

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-11729

تاریخ اجراء:       26 ذوالحجۃ الحرام     1443 ھ/06 اگست   2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ایک صاحب جو اپنے آپ کو حنفی فقہ کا پیروکار بتاتے ہیں، ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے۔ اس میں انہوں نے کہا کہ اگر امام ایک طرف سلام پھیر لے اور اس کے فوراً بعد مقتدی  بھی ایک سلام پھیرے ،تو یہ طریقہ غلط ہے ،  درست طریقہ یہ ہے کہ جب امام دونوں طرف سلام پھیر لے اس کے بعد مقتدی  دونوں سلام پھیرے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے اس ویڈیو بیان میں اس بات کی بھی تاکید کی ہے کہ امام کے ساتھ سلام پھیر نےوالے سنت کے تارک ہیں، لہذا امام کے بعد سلام پھیرنے والوں کوسنت زندہ کرنے کا بھی ثواب ملے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سنت یہ ہے کہ جو مقتدی شروع سے امام کے ساتھ نماز میں شریک ہے ، وہ امام کے سلام پھیرتے ہی اپنا پہلا سلام پھیر دے۔ یعنی جب امام نے سلام پھیرنا شروع کیا، تو امام کا سلام ختم ہونے سےپہلے مقتدی سلام پھیرنا شروع کر  دے ،یہی طریقہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی سنت ہے اور مقتدی کو اسی پر عمل کرنے کا حکم ہے ۔

   بخاری شریف میں ہے :’’وكان ابن عمر رضی اللہ عنهما يستحب إذا سلم الإمام أن يسلم من خلفه۔۔۔۔ عن عتبان قال صلينا مع النبی صلى اللہ عليه وسلم فسلمنا حين سلم‘‘ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرے ،تو مقتدی بھی سلام پھیر دیں ۔۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، کہتے ہیں ہم نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، جب حضور علیہ السلام نے سلام پھیرا، تو ہم نے سلام پھیرا ۔(صحیح البخاری مع العمدۃ،ج4، ص600، مطبوعہ ملتان)

   علامہ زکریا انصاری علیہ الرحمۃ اس باب کے تحت فرماتے ہیں:’’قضيته كالحديث الآتی: أن يقارنه فی السلام الحينية الآتية ۔۔۔ وكأن البخاري يميل إلى أنه يسن له أن يسلم عقب سلام الإمام، فاحتج له بقوله وكان ابن عمر  إلخ۔۔۔ فسلمنا حين سلم أي معه بحيث كان ابتداء سلامهم بعد ابتداء سلامه وقبل فراغه منه‘‘ ترجمہ: اس کانتیجہ آنے والی حدیث کی طرح ہے کہ سلام پھیرنے میں اس وقت کے ساتھ مقارنت اختیار کرے ۔۔۔ گویا امام بخاری علیہ الرحمۃ کا میلان اس طرف ہے کہ مقتدی کے لیے امام کے ساتھ سلام پھیرنا سنت ہے ، اسی بنا پر انہوں نے دلیل پکڑی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ، آخر حدیث تک ۔۔۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا ،تو ہم نے سلام پھیرا یعنی آپ علیہ السلام کے ساتھ ، اس طرح کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد اسے ختم کرنے سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سلام کی ابتدا ہوتی ۔(منحۃ الباری ، ج2، ص553، مکتبۃ الرشد)

   علامہ عینی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’وأشار بهذا إلى أن لا يتأخر المأموم فی سلامه بعد الإمام متشاغلا بدعاء ونحوه، دل عليه أثر ابن عمر المذكور هنا ‘‘ترجمہ: اس باب سے امام بخاری نے اشارہ فرمایا کہ مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعد دعا وغیرہ میں مشغول ہو کر تاخیر نہ کرے ، اسی پر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت دلالت کرتی ہے ۔(عمدۃ القاری ،ابواب الصفۃ الصلاۃ ، باب یسلم حین ۔۔الخ ، ج4، ص600 ،مطبوعہ ملتان)

   نور الایضاح و مراقی الفلاح میں ہے:”ویسن (مقارنتہ) ای سلام المقتدی (لسلام الامام) عند الامام“یعنی امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مقتدی کے سلام کا امام کے سلام کے ساتھ ملا ہونا سنت ہے ۔(مراقی الفلاح مع طحطاوی ، ص 276 ، مطبوعہ کراچی)

   حلبۃ المجلی میں ہے :”عد فی البدائع للتسلیم سننا ۔۔۔۔منھا:ان یسلم مقارنا لتسلیم الامام ان کان مقتدیا“یعنی بدائع میں سلام کی کچھ سنتیں شمار کی گئی ہیں ۔۔۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر مقتدی ہے ،تو امام کے سلام کے ساتھ سلام پھیرے۔ (حلبۃ المجلی ، ج 2 ، ص 220، مطبوعہ بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے :’’متابعتِ امام جومقتدی پرفرض میں فرض ہے، تین صورتوں کوشامل ، ایک یہ کہ اس کاہرفعل فعل امام کے ساتھ کمال مقارنت پرمحض بلافصل واقع ہوتارہے، یہ عین طریقہ مسنونہ ہے اورہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک مقتدی کواسی کاحکم ۔(فتاوی رضویہ ،ج7،ص 274،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   مذکورہ بالا گفتگو سے واضح ہو گیا کہ اصل سنت امام کے ساتھ سلام پھیرنا ہے،مقتدی کو بھی اسی پر عمل کا حکم ہے۔ جو شخص امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرنے کو سنت کہتا ہے ، اسے چاہیے کہ اپنے دعوی پر واضح حدیثِ پاک سے  دلیل لائے ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم