Muqtadi Qadah Ula Mein Bhoole Se Durood Parh Le To Kya Hukum Hai?

 

مقتدی قعدہ اولیٰ میں بھولے سے درود پڑھ لے، تو کیا حکم ہے ؟

مجیب:مفتی ابو محمد  علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13538

تاریخ اجراء: 25ربیع الاول1446 ھ/30ستمبر  2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ نمازِ مغرب میں زید مقتدی نے قعدہ اولیٰ میں بھولے سے التحیات کے بعد مکمل درود بھی پڑھ لیا، پھر جب امام صاحب تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے ،تو اُسے معلوم ہوا کہ یہ تو قعدہ اولیٰ تھا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اس صورت میں زید کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ کیا اُس پر سجدہ سہو واجب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد درود پاک نہ پڑھنا واجباتِ نماز میں سے ہے، مگر  مقتدی سے امام کی اقتدامیں بھولے سے کوئی واجب چھوٹ جائے ،تو اس پر اصلاً ہی سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں زید مقتدی کی نماز درست ادا ہوگئی، اُس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا ۔

   چنانچہ درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:”( لا بسهوه ) أي لا يجب على المقتدي بسهوه إذ لو سجد وحده خالف إمامه ، وإن سجد معه الإمام انقلبت الإمامة اقتداء“یعنی مقتدی پر اپنے سہو کے سبب سجدہ سہو واجب نہیں،  کیونکہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اکیلے ہی سجدہ سہو کرلے، تو اس صورت میں وہ امام کی مخالفت کرنے والا کہلائے گا، اور اگر امام اس کی پیروی کرتے ہوئے سجدہ سہو کرے،  تو اُس کی امامت اقتداء میں بدل جائے گی۔(درر الحکام شرح غررالاحکام ،کتاب الصلاۃ ،ج01،ص151،داراحیاء الکتب العربیۃ)

   نہر الفائق، فتاوی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے،و النظم للاول:’’لا يجب على المقتدی بسهوہ لأنه إن سجد وحده أي: قبل السلام فقد خالف الإمام فلو تابعه انعكس الموضوع ولو أخره إلى ما بعد سلام الإمام فات محله لخروجه بسلامه لأنه سلام عمد ممن لا سهو عليه“یعنی مقتدی پر اپنے سہو کے سبب سجدہ سہو واجب نہیں کیونکہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اکیلے ہی سجدہ سہو کرلے تو اس صورت میں وہ امام کی مخالفت کرنے والا کہلائے گا ۔  اگر اس صورت میں امام اس کی پیروی کرتا ہے پھر تو پوری ہیئت ہی بدل جائے گی کہ اس صورت میں امام ، مقتدی بن جائے گا ، اور اگر مقتدی سجدہ سہو کو امام کے سلام پھیرنے تک مؤخر کرتا ہے تو اب سجدہ سہو کا محل ہی فوت ہوجائے گا کہ سلام پھیرنے کے سبب وہ نماز سے باہر ہوچکا ہے، کیونکہ  بھولے بغیر سلام پھیرنا نماز سے باہر کردیتا ہے۔(النھر الفائق ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 326، مطبوعہ کراچی)

   قعدہ اولیٰ میں درود پڑھنے کے حوالے سے بہارِ شریعت میں مذکور ہے:”فرض و وتر و سنن رواتب کے قعدۂ اولیٰ میں اگر تشہد کے بعد اتنا کہہ لیا ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ،يا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی سَیِّدِنَاتو اگر سہواً ہو سجدۂ سہو کرے، عمداً ہو تو اعادہ واجب ہے۔ “(بھارِ شریعت، ج 01، ص 520، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مقتدی سے بھول ہوئی،تو سجدہ سہوواجب نہ ہونے سے متعلق بہار شریعت میں ہے:”اگر مقتدی سے بحالتِ اقتدا سہو واقع ہوا، تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔“(بھار شریعت ،ج01،ص715 ، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”امام کے پیچھے اگر مقتدی سے سہواً یا قصداً کوئی واجب چھوٹ گیا،مثلاً: تعدیل ارکان، (قومہ ، جلسہ ) نہیں کیا ،یا تشہد نہیں پڑھا ،تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”کسی واجب کو قصداً(جان بوجھ کر)امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی۔ اور اگر امام کے پیچھے سہواً(بھول سے)کوئی واجب چھوٹ گیا تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا  اور نماز ہو جائے گی ۔(وقار الفتاوی،ج02،ص210،بزم وقار الدین، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم