Muqtadi ka Qada Ula Mein Tashahhud ki Takrar

پہلے قعدے میں مقتدی نے تشہد کا تکرار کیا،تو نماز کاحکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:AQS-2694

تاریخ اجراء:24ربیع الآخر 1446ھ/28اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات نمازِ پنجگانہ میں امام صاحب پہلے قعدہ میں تشہد پڑھ رہے ہوتے ہیں، لیکن مقتدی کا تشہد مکمل ہوجاتا ہے، تو اب اگر مقتدی اس وجہ سے کہ خاموش رہنے سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، دوبارہ آدھی تشہد پڑھ لے ، تو مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جماعت میں مقتدی کو چاہیے کہ اس رفتار سے تشہد پڑھے کہ امام کے تشہد مکمل کرنے تک مقتدی کا تشہد مکمل ہوجائے اور اگر مقتدی نے قعدہ اولیٰ میں امام سے پہلے تشہد پڑھ لیا،

تو اب اس پر واجب ہے کہ خاموش بیٹھا رہے اور امام کے اٹھنے کا انتظار کرے ؛یہ خاموش بیٹھنا امام کی اتباع کی وجہ سے ہے،تو اس سے مقتدی کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ مقتدی قعدہ اُولیٰ میں امام سے پہلے تشہد مکمل کر لے،تو اب تیسری رکعت کے لیے کھڑا نہیں ہوسکتا، کہ امام کی اتباع واجب ہے اور امام ابھی تک بیٹھا ہوا ہے؛اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ پہلے قعدے میں تشہد سے زیادہ کچھ بھی نہ پڑھا جائے،خواہ دُرودِ پاک ہو یا تشہد ہی کا تکرار ہو،اگر دُرود پاک پڑھا،یا تشہد کا تکرار کیا، تو ترکِ واجب ہوگا،تو اب خاموش رہنے کے علاوہ کوئی اور صورت نہیں بچی،تو مقتدی کے حق میں یہی متعین ہوگیا  کہ وہ خاموش رہے گا،لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مقتدی نے ایک دفعہ تشہد پڑھنے کے بعد یہ سوچ کر کہ خاموش نہیں رہنا، پھر آدھا تشہد پڑھ لیا،تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوجائے گی،کیونکہ یہ جان بوجھ کر(ایک رکن کی مقدار سے زیادہ)تشہد کا تکرار(یعنی ترکِ واجب)کرنا ہے اور جان بوجھ کر واجب کا ترک اگرچہ امام کے پیچھے ہو،اس سے نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوجاتی ہے۔

   نیز جان بوجھ کر واجب ترک کرنا گناہ بھی ہے،لہٰذا اس گناہ سے توبہ کرنا بھی اس پر لازم ہوگا۔

   مقتدی امام سے پہلے تشہد پڑھ لے، تو خاموش رہنے کا حکم ہے،جیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:(ولا يزيد)فی الفرض(على التشهد فی القعدة الأولى)إجماعا(فإن زاد عامدا كره)فتجب الإعادة(أو ساهيا وجب عليه سجود السهو لتأخير القيام.ولو فرغ المؤتم قبل إمامه سكت اتفاقاترجمہ:(اکیلے نماز پڑھنے والا شخص)فرضوں کے قعدہ اولیٰ میں بالاتفاق تشہد سے زیادہ کچھ بھی نہ بڑھائے۔اگر قصداً کچھ زیادہ کیا، تو مکروہ تحریمی عمل کیا اور نماز واجب الاعادہ ہوجائے گی، یا بھول کر کچھ زیادہ کیا ، تو سجدہ سہو لازم ہوجائے گا، تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر کی وجہ سے، لہٰذا اگر مقتدی امام سے پہلے تشہد سے فارغ ہوجائے، تو بالاتفاق(اس کے لیے حکم ہے کہ)خاموش رہے۔

   مقتدی کے حق میں سکوت واجب ہونے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاخیار میں ہے:”(قولہ سکت اتفاقاً)ای لایاتی بالصلوات ولایکرر کلمۃ الشھادۃ اما الاول فلماتقدم من انہ لایزید و اما الثانی فلما تقدم فی الواجبات من ان کل کلمۃ من التشھد واجب ثم قال وعدم تکریر کل فلم یبق الاالسکوت او القیام وفی القیام عدم متابعۃ الامام الواجبۃ فتعین السکوت“ ترجمہ:مصنف کا قول: (بالاتفاق مقتدی خاموش رہے گا)یعنی نہ ہی درودِ پاک پڑھے اور نہ ہی کلمۂ شہادت کا تکرار کرے گا، پہلی چیز(یعنی درودِ پاک نہ پڑھنا)اس وجہ سے ہے کہ پیچھے گزر چکاکہ(یہ واجب ہے کہ پہلے قعدے میں)تشہد پر کچھ بھی زیادہ نہیں کرے گا، اور دوسری چیز(یعنی کلمہ شہادت کا تکرار نہ کرنا)اس وجہ سے ہے کہ واجبات کے بیان میں گزر چکا ہے کہ تشہد کا ہر کلمہ واجب ہے، پھر فرمایا کہ تمام(واجبات میں سے کسی)کا تکرار نہ کرنا(بھی واجب ہے)،تواب صرف دو صورتیں بچ گئیں،ایک خاموش رہنا اور دوسری قیام کرنا۔اگر قیام کرے گا،تو امام کی اتباع جو واجب ہے، وہ نہیں رہے گی، لہٰذااب(مقتدی کے حق میں)صرف خاموش رہنا ہی متعین ہوگیا۔(تحفۃ الاخیار علی الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی بیان تالیف الصلوٰۃ، صفحہ63، مخطوطہ)

   درمختار کی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:(قوله سكت اتفاقا) لأن الزيادة على التشهد فی القعود الأول غير مشروعة كما مر؛ فلا يأتی بشیء من الصلوات و الدعاء وإن لم يلزم تأخير القيام عن محله، إذ القعود واجب عليه متابعة لإمامه۔۔۔۔قال ح:وهذا فی قعدة الإمام الأخيرة كما هو صريح قوله ليفرغ عند سلام إمامه،وأما فيما قبلها من القعدات فحكمه السكوت كما لا يخفى.اهـ ترجمہ:( شارح کا قول: مقتدی پہلے قعدے میں امام سے پہلے تشہد پڑھ لے، تو بالاتفاق خاموش رہے)کیونکہ پہلے قعدے میں تشہد کی مقدار سے زیادہ ٹھہرنا، جائز نہیں ہے، جیسا کہ پیچھے گزرا ہے، لہٰذا(مقتدی)درودِ پاک، دعا وغیرہ کچھ نہیں پڑھے گا،اگرچہ اس سے قیام میں تاخیر لازم نہیں آتی،کیونکہ یہ بیٹھنا امام کی اتباع کی وجہ سے اس پر واجب ہے۔(پھر قعدہ اخیرہ کے چند احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا:)علامہ حلبی کہتے ہیں کہ یہ گفتگو قعدہ اخیرہ کے بارے میں ہے،جیسا کہ اس قول میں صراحت ہے کہ(مسبوق آہستہ آہستہ پڑھے)تاکہ امام کے سلام کے وقت مسبوق تشہد سے فارغ ہو اور بہرحال قعدہ اولیٰ میں!تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں خاموش ہی رہنا ہے۔جیسا کہ مخفی نہیں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، فصل فی بیان تالیف الصلوٰۃ، جلد2، صفحہ269، 270، مطبوعہ کوئٹہ)

   قعدہ اُولیٰ میں سہواً تکرارِ تشہد سے سجدہ سہو واجب ہونے سے متعلق تبیین الحقائق،محیط برہانی اور خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے،واللفظ للاول:”ولو کرر التشھد فی القعدۃ الاُولی فعلیہ سجودُ السھوِ“ترجمہ:اگر(بھولے سے)پہلے قعدے میں تشہد کا تکرار کیا ، تو سجدہ سہو لازم ہوجائے گا۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلوٰۃ، باب سجود السھو، جلد1، صفحہ474، مطبوعہ بیروت)

   تشہد سے زیادہ ایک رکن کی مقدار پڑھا ، تو ترکِ واجب ہوگا،چنانچہ نور الایضاح مع  مراقی الفلاح میں ہے: ”یجب(القیام الی)الرکعۃ(الثالثۃ من غیر تراخ بعد)قراءۃ(التشھد) حتی لو زاد علیہ بمقدار اداء رکن  ساھیا یسجد للسھو لتاخیر واجب القیام للثالثۃترجمہ:تشہد پڑھنے کے بعد بغیر تاخیر تیسری رکعت کی طرف اٹھنا  واجب ہے،اگر کسی نے  بھولے سے تشہد پر ایک رکن  کی مقدار زیادتی کی، تو تیسری رکعت  کے لیے اٹھنے کا واجب مؤخر ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔

   قصداً ایسا کرنے کی صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہونے سے متعلق حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:”احترز بہ عن العمد فان الصلاۃ تکون بہ مکروھۃ تحریما“ترجمہ:بھولنے کی قید سے عمداً  کو نکال دیا،کیونکہ جان بوجھ  کر ایسا کرنے سے نماز  مکروہ تحریمی ہو گی۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، واجبات الصلاۃ، جلد1، صفحہ342، مکتبہ غوثیہ، کراچی)

   رکن کی تفسیر کے متعلق حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:”ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن يعتبر الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات“ترجمہ:علماء نے رکن کی مقدار بیان نہیں کی اور قیاس یہی ہے کہ اس میں سنت کے ساتھ رکن کا اعتبار کیا جائے اور یہ تین تسبیح کی مقدار ہے۔(حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب سجود السھو، جلد2، صفحہ76،مکتبہ غوثیہ، کراچی)

   مقتدی بھی اگر جان بوجھ کر کسی واجب کو ترک کرے ،تو اس کی نماز واجب الاعادہ ہوگی۔ جیسا کہ سید ی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہاگرمقتدی نے رکوع یاسجدہ امام کے ساتھ نہ کیا، بلکہ امام کے فارغ ہونے کے بعد کیا، تو نماز اس کی ہوئی یانہیں؟آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”ہوگئی اگرچہ بلاضرورت ایسی تاخیر سے گنہگار ہوا اور بوجہ ترک واجب اعادہ نماز کاحکم دیاجائے تحقیق مقام یہ ہے کہ۔۔۔۔۔(مقتدی نے)اگر بلاضرورت فصل کیا، توقلیل فصل میں جس کے سبب امام سے جا ملنافوت نہ ہو،ترک ِسنت اورکثیرمیں جس طرح صورتِ سوال ہے کہ فعل  امام ختم ہونے کے بعداس نےفعل  کیا، ترکِ واجب میں جس کاحکم اس نمازکوپوراکرکے اعادہ کرنا۔(فتاوٰ ی رضویہ،جلد7، صفحہ274،275، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   مفتی وقار الدین رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہامام کے پیچھے اگر مقتدی سے سہواً یاقصداً کوئی واجب چھوٹ گیا، مثلاً: تشہد نہیں پڑھا تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟آپ علیہ الرحمۃاس کے جواب میں فرماتے ہیں:کسی واجب کو قصداً(جان بوجھ کر)امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگیاور اگر امام کے پیچھے سہواً(بھولے سے)کوئی واجب چھوٹ گیا، تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔(وقار الفتاوی،جلد2،صفحہ210،مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

   اور مکروہ تحریمی کے گناہ ہونے سے متعلق فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے:”ترک واجب مکروہ تحریمی اور مکروہ تحریمی کاارتکاب گناہ۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد7، صفحہ40، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم