Mian Biwi Mein Se Ek Namaz Mein Ho To Dusre Ka Usay Bosa Dena

 

میاں، بیوی میں سے ایک نماز میں ہو تو دوسرے کا اسے بوسہ دینا

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3368

تاریخ اجراء: 11جمادی الاخریٰ 1446ھ/14دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر بیوی نماز پڑھ رہی ہو اور خاوند بوسہ لے، اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے  یا نہیں  اور اگر شوہر نماز میں ہو اور بیوی بوسہ لے تو کیا حکم ہے؟کیا ان دونوں مسئلوں میں کوئی  فرق ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیوی نماز پڑھ رہی ہو اور شوہر اس کا بوسہ لے لے تو اس سے عورت کی نماز ٹوٹ جاتی ہے ،اور اگر شوہر نماز پڑھ رہا ہو اور اس  حالت میں  بیوی شوہرکا بوسہ لے لے ،تو اگر مرد کو شہوت نہ ہو تو اس کی نماز نہیں ٹوٹتی ،یہ ان دونوں مسئلوں  میں فرق ہے ۔اور اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اصل میں جماع مرد کا فعل ہے، تو جس طرح مرد کے عورت کے ساتھ جماع کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، اسی طرح اگروہ ایسے افعال کرے جو جماع کے معنی میں ہیں یعنی بوسہ لینا وغیرہ تو معنوی اعتبار سے جماع پائے جانے کی وجہ سے نماز ٹوٹنے کا حکم ہوتا ہے ،اس کے برخلاف جب عورت مرد کا بوسہ لے تو جب تک مرد کو شہوت نہ ہو نماز ٹوٹنے کا حکم نہیں ،کیونکہ جماع اصل میں عورت کا فعل نہیں ہے ،تو اس کا بوسہ  لینا، جماع کے معنی میں نہیں جب تک کہ مرد کو شہوت نہ ہو۔

   بہا ر شریعت میں ہے" عورت نماز میں تھی، مرد نے بوسہ لیا یا شہوت کے ساتھ اس کے بدن کو ہاتھ لگایا، نماز جاتی رہی اور مرد نماز ميں تھا اور عورت نے ايسا کيا تو نماز فاسد نہ ہوئی، جب تک مرد کو شہوت نہ ہو۔ " (بہار شریعت ،جلد1، حصہ03،صفحہ612،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   وجہ فرق بیان کرتے ہوئے علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:" وأشار في الخلاصة إلى الفرق بأن تقبيله في معنى الجماع يعني أن الزوج هو الفاعل للجماع فإتيانه بدواعيه، في معناه؛بخلاف المرأة فإنها ليست فاعلة للجماع فلا يكون إتيان دواعيه منها في معناه ما لم يشته الزوج "ترجمہ:خلاصہ میں وجہ فرق کی طرف اشارہ کیا کہ مرد کے عورت کو بوسہ دینے میں جما ع کا معنی پایا جاتا ہے ،یعنی اس وجہ سے کہ شوہر ہی جماع کا فاعل ہوتا  ہے ،تو اس کا جماع کے اسباب کو اختیار کرنا ، جماع کے معنی میں ہے ،بر خلاف اس صورت کے کہ جب عورت مرد کا بوسہ لے (تو اس صورت میں جب تک مرد کو شہوت نہ آئے اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی ،)کیونکہ عورت جماع کی فاعلہ نہیں ہوتی تو اس کا اسباب  جماع اختیارکرنا جماع کے  معنی میں نہیں ہوگاجب تک کہ شوہر کو شہوت نہ آئے ۔ (ردالمحتار،جلد1،صفحہ628،دارالفکر ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم