Masjid Ke Chande Se Committee Dalne Ka Hukum ?

مسجد کے چندے سے کمیٹی ڈالنے کا حکم

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul -2522

تاریخ اجراء:       10ذوالقعدۃ الحرام1443ھ/10جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسجد کی انتظامیہ نے مسجد کی توسیع و تعمیر  کے لیے مسجدسے متصل  ہی  ایک پلاٹ خریدنے کے لیے کئی  لوگوں سے  چندہ کیا ،پلاٹ خریدنے کے بعد کچھ رقم کی ادئیگی  باقی ہے، کوئی ایسے ذرائع نہیں  ہیں اور نہ ہی  کوئی فنڈ جمع ہے  جس سے مسجد کے پلاٹ کی    قیمت   مکمل ادا کی جا سکے ۔پلاٹ کی بقیہ قیمت کی ادائیگی  اور اس پلاٹ پر تعمیر  کرنے کےلیے جو رقم کی حاجت ہے،  اس کے متعلق  مسجد کی کمیٹی کے افراد میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ ایک  کمیٹی ڈالی جائے اور پہلی کمیٹی مسجد کو مل جائے، اس میں مسجد کو ایڈوانس کوئی کمیٹی نہیں دینی پڑے گی، بلکہ پہلی بار ہی کمیٹی کی کل رقم مسجد کو مل جائے گی اور  پہلی کمیٹی ملنے کے بعد بقیہ کمیٹیوں کی ادائیگی چندے  کی مد سے ہر ماہ کر دی جائے گی ۔  اس طرح پلاٹ کی قیمت  کی ادائیگی اور اس پر تعمیر کے لیے اخراجات  کی رقم حاصل  ہو جائے گی۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح چندے سے  کمیٹی ڈال سکتے ہیں یا نہیں؟شرعی رہنمائی فرما دیں۔

   نوٹ!سوال میں بیان کردہ کمیٹی کا طریقہ کار جب معلوم کیا، تو وہ درست تھا، جیسا  کہ عام طور پر کمیٹی اس طرح ڈالی جاتی ہے کہ ہرمہینے کچھ افرادمقررہ مقدار میں  پیسےجمع کرواتےہیں اور کسی ایک  کا نام منتخب کرکے جمع شدہ  پیسے اسے دے دیتےہیں ، یوں آگے پیچھے تمام افراد کوایک ایک کرکے اپنے  جمع کروائےہوئے پیسے مل جاتےہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ وقف کو قرض لینے کی ضرورت ہو، تو فقہائے کرام نے چند شرائط کے ساتھ وقف کے لیے قرض لینے کی اجازت عطا فرمائی ہے ۔ وقف کے لیے قرض لینے میں قاضی یا قاضی کی غیر موجودگی میں متولی کی اجازت ضروری ہےاور دوسرا یہ بھی ضروری ہے کہ قرض کے علاوہ کسی اور آسان طریقے سے  یہ ضرورت پوری  نہ ہو سکتی ہو،ان شرائط کے ساتھ مسجد کی تعمیر و توسیع کے لیے قرض لے سکتے ہیں۔بیان کردہ صورت میں مسجد کی توسیع و تعمیر  کے لیے کمیٹی ڈال کر پہلی کمیٹی لینا مسجد کے لیے قرض لینا قرار پائے گا،مسجد کا کسی  دوسرے کو قرض دینا نہیں کہلائے گا،لہذااوپر بیان کردہ شرائط موجود ہونےکی صورت میں اور  مسجد کے پاس ایسے ذرائع موجود ہوں کہ ہر ماہ کمیٹی کی قسط ادا کرنے  میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہوگی، تو اس صورت میں کمیٹی ڈالنے کی اجازت ہے۔

   پہلی کمیٹی عام طور پر کمیٹی ڈالنے والا لیتا ہے ،یہاں یہ بھی ضروری ہوگا کہ کمیٹی  کوئی تیسرا فرد  ڈالے اور تمام لوگوں کے لین دین کا کوئی بھی معاملہ مسجد پر نہیں آنا چاہیے، سوائے اس کے کہ جو مسجد نے پہلی کمیٹی کے طور پر قرض لیا ہے ۔

   البتہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کمیٹی کے ذریعے رقم حاصل کرنے کے بجائے، اچھی طبیعت والے اہل ثروت  لوگوں سے قرض لیا جائے اور آہستہ آہستہ کر کے ان کو رقم واپس کی جائے، کیونکہ بیان کردہ صورت میں کمیٹی کے ذریعے قرض حاصل کرنے کے بعد اس کی ادائیگی  میں کئی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

   واضح رہے کہ ہمارے اس جواب کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی کمیٹی مسجد کو ہی ملے اور مسجد کی طرف سے کوئی پیسے جمع نہیں کروائے جائیں گے کہ یہ وصولی، قرضہ کی وصولی ہوگی اور اس کے بعد کی اقساط قرض کی ادائیگی ہو گی، لیکن  اگر عام ممبران کی طرح پہلے مسجد کے پیسے کمیٹی میں ڈالے گئے اور پھر کوئی درمیان کی کمیٹی دی گئی، تو یہ جائز نہیں ہوگا ،کیوں کہ اب مسجد کی طرف سے جو اَقساط کمیٹی کھلنے سے پہلے جمع ہوں گی، وہ قرض دینا کہلائے گا اور مسجدکا  کسی کو قرض دینے کا عمل،  جائز نہیں ۔

   وقف کے لیے قرض لینے کی اجازت کن کو حاصل ہے؟اس سے متعلق درمختارمیں ہے:”لاتجوز الاستدانۃ علی الوقف الا اذا احتیج الیھا لمصلحۃ الوقف کتعمیر وشراء بذر فیجوز بشرطین، الاول اذن القاضی فلو یبعد منہ یستدین بنفسہ ، الثانی ان لاتتیسر اجارۃ العین والصرف من اجرتھا والاستدانۃ القرض والشراء نسیئۃ “ترجمہ:وقف پر قرض لینا متولی کو جائز نہیں، مگر اس وقت جائز ہے جبکہ اس کی حاجت ہو، جیسے وقف کی مرمت یا زمین وقف میں کاشت کے لیے بیج خریدنا، تو اس صورت میں دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔  شرطِ اول یہ ہے کہ اذنِ قاضی سے قرض لے ۔اگر قاضی دُور ہو، تو متولی از خود قرض لے سکتا ہے، شرطِ ثانی یہ ہے کہ عینِ وقف کو اجارہ پر دینا اور اس کی اجرت سے خرچ کرنا، ممکن نہ ہو۔ استدانت سے مراد قرض لینا اور ادھار  خریدنا ہے۔) در مختار مع رد المحتار، جلد6، صفحہ 673، مطبوعہ کوئٹہ (

   علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ عبارت کے تحت ردالمحتار میں فرماتے ہیں:” ذکرہ ابو اللیث و ھو المختار انہ اذالم یکن من الاستدانۃ بد تجوز بامرالقاضی ان لم یکن بعیداعنہ۔۔۔امامالہ منہ بد کالصرف علی المستحقین فلا کما فی القنیۃ الاالامام والخطیب والمؤذن فیما یظھر لقولہ فی جامع الفصولین لضرورۃ مصالح المسجد اھ والاالحصیر والزیت بناء علی القول بانھما من المصالح وھو الراجح، ھذاخلاصۃ مااطال فی البحر“ترجمہ:مختار یہ ہے کہ اگر قرض لینا  ضروری ہو ،تو قاضی کی اجازت سے جائز ہے، جبکہ قاضی دُور نہ ہو ،لیکن اگر ضروری نہ ہو تو جائز نہیں، جیسے مستحقین پر خرچ کرنے کے لیے قرض لینا ۔جیسا کہ قنیہ میں ہے۔ مگر امام، خطیب اور مؤذن پر خرچ کرنے کے لیے قرض لینا جائز ہے، جیسا کہ جامع الفصولین کے قول سے ظاہرہے، کیونکہ اس میں مسجد کی مصلحت ہے۔ اور مسجد کی چٹائی اور تیل کےلیےقرض لینا بھی جائز ہے ، اس قول کی بناء پر کہ یہ مَصالِح مسجد میں سے ہیں اور یہی راجح ہے، یہ بحر کی طویل بحث کا خلاصہ ہے ۔(ملخصا از رد المحتارعلی الدر المختار، جلد6، صفحہ 673، 674، مطبوعہ کوئٹہ)

   یاد رکھیں کہ مذکورہ صورت میں مسجد کے لیے قرض حاصل کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ مسجد و فنائے مسجد کے علاوہ، مسجد کے لیے وقف کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جس کو کرایہ پر دے کر مسجد کی حاجت کو پورا کیا جا سکے، اگر کوئی ایسی چیز موجود ہوئی، تو پھر  مسجد کے لیے قرض لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔

   امام اہل سنت  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے  سوال ہوا کہ :” تعمیر مدرسہ کے واسطے بمشورہ مسلمین قرض لینا روایا ناروا ؟ “اس  سوال کے جواب میں امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” متولی کو وقف پر قرض لینے کی دو شرط سے اجازت ہے،  ایک یہ کہ امر ضروری ومصالح لابدی وقف کے لئے باذن قاضی شرع قرض لے ،اگر وہاں قاضی نہ ہو خود لے سکتا ہے،د وسرا یہ کہ وہ حاجت سوائے قرض اور کسی سہل طریقہ سے پوری نہ ہوتی ہو، مثلاً: وقف کا کوئی ٹکڑا اجارہ پر دے کر کام نکال لینا۔)فتاوی رضویہ، جلد16، صفحہ569 تا571، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور(

   صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:”ضرورت کے وقت مثلاً:وقف کی عمارت میں صَرْف کرنا ہے اور صَرف نہ کریں گے تو نقصان ہوگا یا کھیت بونے کا وقت ہے اور وقف کے پاس نہ روپیہ ہے نہ بیج اور کھیت نہ بوئیں، تو آمدنی ہی نہ ہوگی ایسے اوقات میں وقف کی طرف سے قرض لینا جائز ہے، مگر اس کے ليے دو شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ قاضی کی اجازت سے ہو۔ دوم یہ کہ وقف کی چیز کو کرایہ پر دےکر کرایہ سے ضرورت کو پورا نہ کرسکتے ہوں۔ اور اگر قاضی وہاں موجود نہیں ہے،  دُوری پر ہے ،تو خود بھی قرض لے سکتا ہے ،خواہ روپیہ قرض لے یا ضرورت کی کوئی چیز اُدھار لے ، دونوں طرح جائز ہے۔(بھار شریعت، جلد2، حصہ 10،صفحہ 544،  مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم