مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-1819
تاریخ اجراء:22رمضان المبارک 1441ھ/16 مئی2020ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین
ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
(1) مسجدِ بیت کیا ہے اور اس کی فضیلت
کیا ہے ؟
(2) کیا عام مسجد کی طرح اس کا بھی فنائے مسجد
ہوتا ہے اور اگر گھر میں پہلے مسجدِ بیت نہیں بنائی
تھی ، اب بنائی ہے ، تو کیا اسے تبدیل کر سکتے ہیں ؟
(3)کیا عورت مسجدِبیت میں نفلی اعتکاف
کرسکتی ہے؟
سائل : عبد اللہ (
ریگل چوک ، کراچی )
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1) گھروں میں نماز پڑھنے کے لیے جو جگہ مختص کی
ہو ، اسے مسجدِ بیت کہتے ہیں اور اس کا بنانا مستحب ہے ۔ بہتر
یہ ہے کہ دوسری جگہ کی نسبت اسے قدرے اونچا ، پاک صاف اور
خوشبودار رکھا جائے کہ مسجدِ بیت بنانے اور اسے پاک صاف رکھنے کا حکم خود
نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا ہے
، جو اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے ۔
اللہ
عز و جل قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً﴾ ترجمۂ کنز الایمان
: ” اور اپنے گھروں کو نماز
کی جگہ کرو۔ “( پارہ
11 ، سورۃ یونس ، آیت 87)
اس آیت کے تحت
تفسیرِ صراط الجنان میں ہے : ” اس آیت سے پانچ باتیں معلوم ہوئیں
:۔۔۔ (2)…رہنے سہنے کے گھروں میں گھریلو
مسجد بنانا، جسے مسجد بیت کہا جاتا ہے، یہ ایک قدیم
طریقہ ہے ، لہٰذا یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان اپنے گھر کا
کوئی حصہ نماز کے لئے پاک و صاف رکھیں اور اس میں عورت اِعتکاف
کرے۔ “( صراط الجنان ، جلد 4 ،
صفحہ 368 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
گھروں میں مسجدِ
بیت بنانے سے متعلق سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
مروی ہے : ” أمر رسول
اللہ صلى اللہ عليه وسلم ببناء المساجد في الدور وأن تنظف وتطيب “ ترجمہ : نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و
السلام نے گھروں میں مسجدیں ( یعنی مساجد البیوت )
بنانے ، انہیں پاک صاف اور خوشبودار رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے
۔( سنن ابو داؤد ، کتاب الصلوٰۃ ، باب اتخاذ
المساجد ۔۔الخ ، ج 1 ، ص 124 ، المکتبۃ العصریہ ،
بیروت )
اس کے
تحت پاک صاف رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ بدر الدین
عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ” بتنظيفها وتطييبها عن الأقذار؛ لأن لها حرمة لأجل إقامة
الصلاة فيها،ولتشبهها بالمساجد المُطلقة “
ترجمہ : گندی چیزوں سے پاک صاف رکھنے کا ( حکم ارشاد فرمایا ) ،
کیونکہ اس میں نماز پڑھے جانے کی وجہ سے وہ جگہ محترم اور عام (
وقف شدہ ) مساجد کے مشابہ ہوجاتی ہے ۔( شرح
ابی داؤد للعینی ، ج 2، ص 359 ، مطبوعہ ریاض )
مرأۃ
المناجیح میں ہے : ” اس سے مسجد بیت مرادہے،یعنی گھر
میں کوئی حجرہ یا گوشہ نما ز کے لیے رکھا جائے جہاں
کوئی دنیوی کام نہ کیا جائے،اس جگہ صفائی ہو اورخوشبو
کا لحاظ رکھا جائے۔ہم نے اپنے بزرگوں کو اس پر عامل پایا،اب اس کا
رواج جاتا رہا۔ “(
مرأۃ المناجیح ، جلد 1 ، صفحہ 443 ، مطبوعہ ضیاء القرآن ، لاھور
)
بہارِ
شریعت میں ہے : ” عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر
میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر کر لے اور چاہیے کہ
اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترہ وغیرہ
کی طرح بلند کرلے۔ بلکہ مرد کو بھی چاہیے کہ نوافل کے
لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لے کہ نفل نماز گھر میں
پڑھنا افضل ہے۔ “( بھارِ
شریعت ، حصہ 5 ، ج 1 ، ص 1021 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی )
(2) مسجدِ بیت کا حکم عام وقف
شدہ مسجد کی طرح نہیں ہوتا ۔اس کو بیچنا ، ہبہ کرنا
وغیرہ درست ہے ۔ اسی طرح ناپاک شخص بھی مسجدِ بیت
میں داخل ہوسکتا ہے۔ مسجدِ بیت میں خرید و فروخت
بھی بلا کراہت جائز ہے ، جبکہ یہ سارے امور عام وقف شدہ مسجد
میں ناجائز ہیں۔ لہٰذا
مسجدِ بیت کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے ۔
ہدایہ
میں مسجدِ بیت کا ایک حکم لکھتے ہوئے فرمایا : ” ولا بأس بالبول فوق بيت فيه مسجد، والمراد ما أعد للصلاة في
البيت؛ لأنه لم يأخذ حكم المسجد، وإن ندبنا إليه “
ترجمہ : اس کمرے کے اوپر واش روم بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ
جس کے نیچے مسجد ہو ۔ اس مسجد سے مراد وہ جگہ ہے کہ جو گھر میں
نماز کے لیے بنائی گئی ہو ، کیونکہ اس کا مستقل مسجد والا
حکم نہیں ہوتا اگرچہ ہمیں اس کی طرف ترغیب دلائی گئی
ہے ۔
اس کے
تحت مسجدِ بیت کا حکم عام مسجد سے مختلف ہونے سے متعلق بنایہ
میں ہے : ” هو الموضع الذي
يعده المصلي في بيته للصلاة ( لأنه لم
يأخذ حكم المسجد ) لبقائه في ملكه،
حتى له أن يبيعه ويهبه ويورث عنه، فكان حكمه حكم غيره من المنزل المملوكوتسميته مسجدا لا يفيد حكم المساجد وإن ندبنا إليه يعني وإن
دعينا إلى اتخاذه في البيت؛ لأنه مستحب لكل إنسان أن يعد في بيته مكانا للصلاة
يصلي فيه النوافل والسنن ملخصاً “ ترجمہ : ( مسجدِ بیت ) وہ جگہ ہے کہ جس کو
نمازی اپنے گھر میں نماز کے پڑھنے کے لیے بناتا ہے ( اور اس کا
حکم مستقل مسجد والا نہیں ہے ) کیونکہ یہ اس کی
ملکیت میں ہی باقی رہتی ہے ، یہاں تک کہ وہ
شخص اسے بیچ بھی سکتا ہے ، ہبہ بھی کر سکتا ہے اور ( اس کے فوت
ہونے کے بعد ) وہ وراثت میں تقسیم ہوگی ، تو اس کا حکم اس
کی ملکیت میں موجود گھر کے دوسرے حصے کی طرح ہی ہے
۔ اس کا نام مسجد رکھنے سے ( عام ) مساجد والا حکم ثابت نہیں ہوگا
اگرچہ ہمیں گھروں میں مسجدِ بیت بنانے کی طرف ترغیب
دلائی گئی ہے ، کیونکہ ہر انسان کے لیے مستحب ہے کہ وہ
اپنے گھر میں کوئی ایسی جگہ بنا لے ، جس میں وہ
نوافل و سنن ادا کرتا رہے ۔( البنایہ شرح ھدایہ
، کتاب الصلوٰۃ ، ج 2 ، ص 469 ، 470 ، دار الکتب العربیہ ،
بیروت )
نیز
قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہاء سے مسجدِ بیت کا ثبوت ہے، مسجدِ
بیت کی فنا یعنی ضمنی متعلقہ ایریاکا
نہیں ،تو اسے مسجدِ بیت ہی کی حد پر محدود رکھنا ہوگا
یعنی یہ مسجد ِ بیت سے نکل کر واش روم یا وضو کی جگہ جائیں گے تو ضروری ہے کہ صرف بوقتِ
ضرورت جائیں اور ضرورت پوری ہونے کے بعد فورا آجائیں
ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ یونہی مسجدِ بیت سے باہر نکل
کرصرف ٹھنڈک یا راحت کے لئے یا عادت کے طور پر غسل کریں گے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
(3)عورت کے حق میں اعتکاف کے
معاملہ میں مسجدِ بیت کا وہی حکم ہے ، جو مرد کے لیے عام
وقف شدہ مسجد کا ہے اور مرد عام وقف شدہ مسجد میں نفلی اعتکاف کر سکتا
ہے ، لہٰذا عورت بھی مسجدِ بیت میں نفلی اعتکاف کر
سکتی ہے ۔
عورت
کے حق میں اعتکاف کے معاملے میں مسجدِ بیت کا حکم عام مسجد والا
ہی ہے جس میں نفلی اعتکاف بھی داخل ہے چنانچہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بدائع
الصنائع میں فرماتے ہیں : ” وأما الذي يرجع إلى المعتكف فيه: فالمسجد وإنه شرط في نوعي الاعتكاف:
الواجب والتطوع۔۔۔ هذه قربة خصت بالمسجد لكن مسجد بيتها له حكم المسجد في حقها
في حق الاعتكاف؛ لأن له حكم المسجد في حقها في حق الصلاة ۔۔۔ وإذا كان له حكم المسجد في حقها في حق الصلاة فكذلك في حق الاعتكاف؛ لأن كل
واحد منهما في اختصاصه بالمسجد سواء وليس لها أن تعتكف في بيتها في غير مسجد وهو
الموضع المعد للصلاة ملخصاً “ ترجمہ : اور بہر حال جس
شرط کا اعتکاف کی جگہ کے ساتھ تعلق ہے ، تو وہ اس جگہ کا مسجد ہونا ہے اور
یہ واجب اور نفلی دونوں اعتکاف میں شرط ہے
۔۔۔ اعتکاف ایسی عبادت ہے جو مسجد کے ساتھ خاص ہے ، لیکن عورت کے
حق میں اعتکاف کے معاملہ میں مسجدِ بیت کا وہی حکم ہے ،
جو (مرد کے حق میں عام وقف شدہ ) مسجد کا ہوتا ہے ، کیونکہ نماز کے
معاملے میں عورت کے حق میں مسجدِ بیت کا ( عام وقف شدہ ) مسجد
والا ہی حکم ہے ، تو جب نماز کے معاملے میں عام مسجد والا حکم ہے ، تو
اعتکاف کے معاملے میں بھی اسی طرح ہی ہوگا ، کیونکہ
مسجد کے ساتھ خاص ہونے کے معاملے میں یہ دونوں برابر ہیں اور
عورت کے لیے اپنے گھر میں مسجدِ بیت کے علاوہ کسی اور جگہ
اعتکاف جائز نہیں ۔( بدائع الصنائع ، کتاب
الاعتکاف ، ج 2 ، ص 280 تا 282 ، مطبوعہ کوئٹہ )
نوٹ: مسجدِ بیت
میں صرف عورتیں ہی اعتکاف کر سکتی ہیں ، مردوں کا
اعتکاف مسجدِ بیت میں نہیں ہوگا ۔
فتاویٰ
عالمگیری میں ہے : ” مساجد البيوت فإنه لا يجوز الاعتكاف فيها إلا للنساء كذا في
القنية “ ترجمہ : مسجدِ بیت میں عورتوں کے علاوہ
کسی کا اعتکاف جائز نہیں ۔جیسا کہ قنیہ میں
ہے ۔( الفتاویٰ
الھندیہ ، کتاب الکراھیۃ ، الباب الخامس ، ج 5 ، ص 321 ، مطبوعہ
بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟