Masbooq Imam Ke Sath Tashahhud Mein Shamil Hua Aur Imam Khara Ho Gaya To

 

مسبوق امام کے ساتھ تشہد میں شامل ہوا ہی تھا کہ امام کھڑا ہوگیا تو مسبوق کیا کرے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD -8977

تاریخ اجراء: 29 ذوالحجۃ   الحرام 5144ھ/06جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مقتدی امام کے ساتھ تشہد میں شامل ہوا ہی تھا کہ امام صاحب کھڑ ےہو گئے اور اس کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے،وہ التحیات مکمل کر کے امام صاحب کے رکوع میں جانے کے بعد کھڑا ہوا اور ایک تسبیح(یعنی ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے) کی مقدار رُک کر رکوع میں امام صاحب سے ملا ، کیا اس کی نماز ہو گئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قوانین شریعت کے مطابق  نماز کے فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی  پیروی  کرنا واجب ہے،لیکن اگر امام کی  پیروی  کرنے میں کسی واجب کا ترک لازم آتا ہو،تو وہاں مقتدی کے لیے حکم یہ ہوتا ہےکہ وہ پہلے اس واجب کو ادا کرے،پھر امام کی  پیروی کرے،اگرچہ اس واجب کو ادا کرنے میں امام دوسرے  رکن میں چلا جائے اورچونکہ تشہد کاپڑھنا بھی واجب ہے، لہذاپوچھی گئی صورت میں چونکہ مقتدی نے تشہد کا واجب ادا کرلیا اور پھر قیام کا رکن ادا کرکے امام کے ساتھ رکوع میں ملا ،تو اس وجہ سے اس کی  نماز ہوگئی ۔

   نماز کے فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی  پیروی  کرنا واجب ہے ،جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”ان متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تاخير واجبة، فان عارضها واجب لا ينبغي ان يفوته بل ياتي به ثم يتابع، كما لو قام الامام قبل ان يتم المقتدي التشهد فانه يتمه ثم يقوم لان الاتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية، وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تاخير احد الواجبين مع الإتيان بهما اولى من ترك احدهما بالكلية“ترجمہ:فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی متابعت واجب ہے،اگر امام کی متابعت کرنے میں کسی واجب کا تعارض پڑے، تو (مقتدی)اس واجب کو نہ چھوڑے،بلکہ اسے ادا کرے، پھر امام کی متابعت کرے،جیسے اگر مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے، تو مقتدی تشہد مکمل کرے،پھر کھڑا ہو، کیونکہ تشہد مکمل کرنے میں امام کی متابعت بالکلیہ فوت نہیں ہوگی،بلکہ تشہد مکمل کرنے کی وجہ سے متابعت مؤخر ہوجائے گی، لیکن تشہد مکمل کیے بغیر امام کی متابعت کرنے کی صورت میں تشہدبالکلیہ فوت ہوجائے گی،پس دونوں واجبوں کی ادائیگی کے ساتھ کسی ایک واجب کی ادائیگی میں تاخیرکرنا،دونوں واجبوں میں سے کسی ایک کو بالکلیہ ترک کرنے سے بہتر ہے۔ (رد المحتار مع الدرالمختار ، جلد 2،صفحہ 202،203 ،مطبوعہ کوئٹہ )

   مقتدی کے تشہد پورا ہونے سے پہلے امام تیسری رکعت کے لیے  کھڑا ہوجائے، تو  مقتدی  تشہد پورا  کرکے امام کی متابعت   کرے ،جیساکہ    فقیہ النفس امام حسن بن منصور اوزجندی المعروف بقاضی خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”اذا قام الامام إلى الثالثة قبل ان يفرغ المقتدی من التشهد فان المقتدی يتم التشهد ثم يقوم  “ترجمہ:جب امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا،تو مقتدی تشہد کو مکمل کرے، پھر کھڑا ہو۔(فتاوی قاضی خان ،جلد  1،صفحہ 90  ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’تحقیقِ مقام یہ ہے کہ متابعتِ امام جومقتدی پرفرض میں فرض ہے،تین صورتوں کو شامل:۔۔۔دوسرے یہ کہ اُس کا فعل،فعلِ امام کے بعد بدیر واقع ہو،اگرچہ بعد فراغِ امام ، فرض یوں بھی ادا ہوجائے گا ۔ پھر یہ فصل بضرورت ہوا ، تو کچھ حرج نہیں ۔ ضرورت کی یہ صورت کہ مثلاً: مقتدی قعدۂ اُولیٰ میں آ کر ملا ، اس کے شریک ہوتے ہی امام کھڑا ہو گیا ، اب اسے چاہیئے کہ التحیات پوری پڑھ کر کھڑا ہو اور کوشش کرے کہ جلد جا ملے ، فرض کیجئے کہ اتنی دیر میں امام رکوع میں آ گیا ، تو اس کا قیام، قیامِ امام کے بعدِ اختتام (یعنی امام کا قیام ختم ہونے کے بعد) واقع ہو گا ، مگر حرج نہیں کہ یہ تاخیر بضرورتِ شرعیہ تھی ۔ “(فتاوی رضویہ ، جلد7 ، صفحہ274 ،275 ،   رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   ایک دوسرے مقام پر  سوال ہواکہ ’’ اگرمقتدی ابھی التحیات پوری نہ کرنے پایاتھا کہ امام کھڑاہوگیایاسلام پھیردیا،تومقتدی التحیات پوری کرلےیا اتنی ہی پڑھ کر چھوڑدے؟‘‘تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جوابا ًلکھا :’’ہرصورت میں پوری کرلے،اگرچہ اس میں کتنی ہی دیرہوجائے۔“(فتاوی رضویہ،جلد 7،صفحہ  52،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

 تشہد   کا پڑھنا بھی واجب ہے ،جیساکہ مسبوق کے تشہد    پڑھ کر اٹھنے  کے متعلق  ہونے والے سوال کے جواب میں  صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ" فتاوی امجدیہ " میں  لکھتے ہیں:’’پورا تشہد پڑھ کے اٹھے ۔۔۔اور ہر قعدے میں تشہد واجب  جیساکہ کتب فقہ سے ظاہر ،تو بغیر تشہد  پورا کیے اٹھنا  ترک واجب ہو گا ۔“(فتاوی امجدیہ ،جلد 1،صفحہ 176،مطبوعہ مکتبہ رضویہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم