Masbooq Ka Imam Ke Sath Akhri Qade Me Durood o Dua Parhne Ka Hukum

مقتدی امام کے آخری قعدے میں دُرود و دعا پڑھ لے ،تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8023

تاریخ اجراء:       17 صفر المظفر 1444ھ/14 ستمبر 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ اگر کوئی مقتدی مسبوق ہو کہ اس کی کوئی رکعت رہ گئی ہو اور وہ امام کے ساتھ آخری رکعت میں تشہد پڑھنے کے بعد دُرود شریف اور دعا بھی پڑھ لے، تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجائے گی یا نہیں؟جبکہ اسے صرف تشہد تک ہی پڑھنا تھا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسبوق (یعنی جس کی کوئی رکعت رہ گئی ہو، اس )کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، تاکہ امام کے سلام پھیرنے کے وقت فارغ ہو اور اگر پھر بھی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے فارغ ہوجائے، تو کلمہ شہادت کی تکرار کرے، لیکن اگر کسی مسبوق نے بھول کر یا جان بوجھ کراس کا خلاف کیا، یعنی تشہد کے بعد بالکل خاموش رہا یا اس کے بعد دُرود ابراہیمی ودعا پڑھ لی یا دوبارہ مکمل تشہد پڑھ لیا، تو اس کا یہ عمل بھی جائز ہے، جس  سے نہ تو بھول کر کرنے والے پر سجدہ ہو گا اور نہ ہی جان بوجھ کر کرنے سے نماز واجب الاعادہ ہو گی۔

   اس میں تفصیل یہ ہے کہ مسبوق بالاتفاق امام کے قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھے گا اور اگر امام کے سلام پھیرنے سے پہلے تشہد سے فارغ ہو جائے تو اب کیا کرے گا؟ اس بارے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ السلام کے متعدد اقوال ہیں:

(1)مسبوق کو چاہیئے کہ وہ تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے ، تاکہ امام کے سلام پھیرنے کے وقت تشہد سے فارغ ہو۔

(2)اگر مسبوق امام کے سلام سے پہلے تشہد سے فارغ ہو جائے، تو تشہد کے بعد خاموش ہو جائے اور دُرود و دُعا کچھ نہ پڑھے۔

(3)ایسا شخص شہادتین (کلمہ شہادت) کی تکرار کرے۔

(4)اگر مسبوق امام کے سلام سے پہلے تشہد سے فارغ ہو جائے، تو تشہد کو شروع سے دوبارہ پڑھے۔

(5)بعض فقہاء نے فرمایا کہ وہ امام کی متابعت میں درود و دعا بھی پڑھے گا۔

(6)اور بعض فقہاء نے فرمایا کہ اسے اختیار ہے، چاہے تو قرآنی دعائیں پڑھے اور چاہے تو درود پاک پڑھے ۔

   اور یہ تمام اقوال مُصَحَّح (تصحیح شدہ )ہیں۔البتہ زیادہ علماء نے دُرود و دُعا کچھ نہ پڑھنے والے قول کو بہتر قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود دوسرے اقوال پر عمل کو ناجائز نہیں فرمایا اور نہ ہی دوسرے اقوال پر عمل کرنے والے کو ترکِ واجب کا مُرتکب ٹھہرا کر سجدہ سہو کے لزوم کا حکم فرمایا اور نہ ہی جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کی نماز کے واجب الاعادہ ہونے کو بیان فرمایا، بلکہ اس بات کی صراحت فرمائی کہ جس قول پر چاہے عمل کر لے، البتہ اسے چاہیئے کہ وہ ٹھہر ٹھہر کر تشہد پڑھے اور اگر پھر بھی امام سے پہلے فارغ ہو جائے، تو کلمہ شہادت کی تکرار کرے ۔

   مسبوق کے تشہد سے فارغ ہونے پر درود و دعا پڑھنے کے بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے”وتكلموا أن بعد الفراغ من التشهد ماذا يصنع؟ فكان ابن شجاع رحمه اللہ يقول يكرر التشهد وأبو بكر الرازي يقول يسكت؛ لأن الدعاء مؤخر إلى آخر الصلاة والأصح أنه يأتي بالدعاء متابعة للإمام؛ لأن المصلي إنما لا يشتغل بالدعاء في خلال الصلاة لما فيه من تأخير الأركان وهذا المعنى لا يوجد هنا؛ لأنه لا يمكنه أن يقوم قبل سلام الإمام “ترجمہ:مسبوق تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرے؟ اس میں فقہاء نے کلام فرمایا ہے۔ ابن شجاع رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ تشہد کی تکرار کرے۔ اور ابو بکر رازی نے فرمایا کہ وہ خاموش رہے، کیونکہ دعا، نماز کے آخر تک مؤخر ہے۔ اور (صاحبِ مبسوط کے نزدیک)اصح یہ ہے کہ وہ امام کی متابعت میں دعا پڑھے گا، کیونکہ مقتدی کا نماز کے دوران دعا میں مشغول ہونا، تاخیرِ ارکان کا سبب ہوتا ہے اور تاخیرِ ارکان یہاں نہیں پائی گئی، کیونکہ وہ امام کے سلام سے قبل کھڑا نہیں ہو سکتا۔(المبسوط لسرخسی، کتاب الصلاۃ، باب افتتاح الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 135، مطبوعہ کوئٹہ)

   مسبوق کے تشہد سے فارغ ہونے کے بعد دعا و درود پڑھنے کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، چنانچہ بحر الرائق میں ہے”وأطلق المصنف التشهد والصلاة فشمل المسبوق ولا خلاف أنه في التشهد كغيره وأما في الصلاة والدعاء فاختلفوا على أربعة أقوال اختار ابن شجاع تكرار التشهد وأبو بكر الرازي السكوت وصحح قاضي خان في فتاواه أنه يترسل في التشهد حتى يفرغ منه عند سلام الإمام، وصحح صاحب المبسوط أنه يأتي بالصلاة والدعاء متابعة للإمام؛ لأن المصلي لا يشتغل بالدعاء في خلال الصلاة لما فيه من تأخير الأركان وهذا المعنى لا يوجد هنا؛ لأنه لا يمكنه أن يقوم قبل سلام الإمام وينبغي الإفتاء بما في الفتاوى“ترجمہ:اور مصنف نے تشہد اور درود کو مطلق ذکر کیا، جو مسبوق کو بھی شامل ہے اور مُدْرِک کی طرح اس کے تشہد پڑھنے میں تو کوئی اختلاف  نہیں ہے اور اس (مسبوق) کے درود اور دعا پڑھنے میں فقہائےکرام رحمہم اللہ تعالی علیہم اجمعین کے چار مختلف اقوال ہیں۔(1)ابن شجاع نے تشہد کی تکرار کو اختیار فرمایا۔ (2)اور ابو بکر رازی نے سکوت (خاموش رہنے)کو اختیار فرمایا۔ (3)امام قاضی خان علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں اس کی تصحیح کی ہے کہ وہ تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، حتی کہ امام کے سلام پھیرنے کے وقت یہ تشہد سے فارغ ہو۔ (4)اور صاحبِ مبسوط نے اس کی تصحیح فرمائی کہ مسبوق امام کی متابعت میں درود اور دعا بھی پڑھے، کیونکہ مقتدی کا نماز کے دوران دعا میں مشغول ہونا، تاخیرِ ارکان کا سبب ہوتا ہے اور تاخیرِ ارکان یہاں نہیں پائی گئی، کیونکہ امام کے سلام سے پہلے اس کے لیے اٹھنا ممکن نہیں اور مناسب یہ ہے کہ فتوی اسی قول پر دیا جائے، جو فتاوی میں ہے۔                                     (بحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 575، مطبوعہ کوئٹہ)

اس مسئلہ کی مزید وضاحت اور دیگر اقوال کو نقل کرتے ہوئےعلامہ کاسانی علیہ الرحمۃ "بدائع الصنائع" میں لکھتے ہیں:”ولا خلاف في أن المسبوق يتابع الإمام في مقدار التشهد إلى قوله: " وأشهد أن محمدا عبده ورسوله " وهل يتابعه في الزيادة عليه ذكر القدوري أنه لا يتابعه عليه، لأن الدعاء مؤخر إلى القعدة الأخيرة وهذه قعدة أولى في حقه، وروى إبراهيم بن رستم عن محمد أنه قال: يدعو بالدعوات التي في القرآن، وروى هشام عن محمد أنه يدعو بالدعوات التي في القرآن ويصلي على النبي صلى اللہ عليه وسلم وقال بعضهم: يسكت وعن هشام من ذات نفسه ومحمد بن شجاع البلخي أنه يكرر التشهد إلى أن يسلم الإمام، لأن هذه قعدة أولى في حقه، والزيادة على التشهد في القعدة الأولى غير مسنونة، ولا معنى للسكوت في الصلاة إلا الاستماع فينبغي أن يكرر التشهد مرة بعد أخرى ترجمہ: اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مسبوق تشہد میں’’ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله ‘‘ تک امام کی پیروی کرے گا، لیکن کیا اس سے زیادہ (درود و دعا)پڑھے گا؟ امام قدوری علیہ الرحمۃ نے ذکر فرمایاکہ وہ اس میں امام کی اتباع نہیں کرے گا، کیونکہ دعا نماز کے آخری قعدہ میں پڑھی جاتی ہے اور یہ قعدہ مسبوق کے حق میں قعدہ اولی ہے اور ابراہیم بن رستم نے امام محمد علیہما الرحمۃ سے روایت کی کہ وہ قرآنی دعاؤں میں سے کوئی دعا پڑھے اور ہشام نے انہی سے روایت کی کہ مسبوق قرآنی دعا پڑھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور بعض علماء نے فرمایا کہ مسبوق تشہد کے بعد خاموش رہے اور ہشام سے اور محمد بن شجاع بلخی سے مروی ہے کہ مسبوق امام کے سلام پھیرنے تک تشہد کی تکرار کرے، کیونکہ یہ قعدہ مسبوق کے حق میں قعدہ اولی ہے اور قعدہ اولی میں تشہد پر زیادتی مسنون نہیں ہے اور بلا استماع نماز میں خاموشی کا کوئی معنی نہیں، تو مناسب یہ ہے کہ وہ تشہد کی تکرار کرتا  رہے ۔(بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، بیان وقت النیۃ الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 332، مطبوعہ کوئٹہ)

   ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام شہاب الدین محمد بن احمد شلبی علیہ الرحمۃ "حاشیۃ الشلبی علی التبیین" میں فرماتے ہیں:” قلت يشكل عليهما القيام فإن المقتدي يسكت فيه من غير استماع وروى أبو عبد اللہ البلخي عن أبي حنيفة أنه يأتي بالدعوات وبه كان يفتي عبد اللہ بن الفضل الخزاخزي، لأن في الاشتغال بها في التشهد تأخير الأركان وهذا المعنى لا يوجد هنا“ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ ان دونوں کے قول  پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ سِری نماز کے قیام میں مقتدی بلا استماع خاموش رہتا ہے اور ابوعبد اللہ بلخی نے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی کہ مسبوق تشہد کے بعد دعائیں پڑھے اور عبداللہ بن فضل خزاخزی علیہ الرحمۃ اسی پر فتوی دیتے تھے، کیونکہ تشہد کے اندر دعاؤں میں مشغول ہونا نماز کے ارکان میں تاخیر کی وجہ سے منع ہے اور یہ معنی یہاں نہیں پایا جاتا ۔(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 124، مطبوعہ بیروت)

   ان تمام اقوال کو نقل کرتے ہوئے فتاوی تاتا رخانیہ میں ہے:”و اما اذا ادرکہ فی القعدۃ الاخیرۃ ،فانہ یکبر تکبیر ۃ الافتتاح قائما، ثم یقعد ویتابعہ فی التشھد،ولایاتی بالدعوات المشروعۃ بعد الفراغ من التشھد عند بعض المشایخ،والیہ مال شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ،وبعضھم قالوا:یاتی بھا متابعۃ للامام،ھکذا روا ہ الشیخ ابو عبد اللہ البلخی عن ابی حنیفۃ،وبہ کان یفتی عبد اللہ بن الفضل ۔ الظھیرۃ :وھو الاصح، ثم علی قول من لایاتی بالدعوات المشروعۃ بعد الفراغ من التشھد ماذا یصنع ؟اختلفوافیما بینھم،قال بعضھم:یکرر التشھد من اولہ،وقال بعضھم:یصلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،وفی التفرید :وقال بعضھم یکررکلمۃ الشھادۃ ،م:وقال بعضھم:یاتی بالدعوات التی فی القرآن﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوْ اَخْطَاۡنَا﴾﴿رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوۡبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیۡتَنَاوقال بعضھم:یسکت وقال بعضھم بالخیاران شاء اتی بالدعوات المذکورۃفی القرآن،وان شاء صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ترجمہ:اور جب کوئی امام کے ساتھ نماز کے قعدہ اخیرہ میں شامل ہو، تو وہ تکبیر تحریمہ کہہ کر کھڑا ہو گا اور پھر قعدہ میں بیٹھ جائے گا اور امام کی متابعت میں تشہد پڑھے گا اور بعض مشائخ کے نزدیک وہ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد مشروع دعائیں نہیں پڑھے گا، اسی کی طرف شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ مائل ہوئے اور بعض علماء نے فرمایا کہ وہ اس میں امام کی متابعت کرے گا (یعنی یہ دعائیں بھی پڑھے گا) اور ایسا ہی شیخ ابو عبد اللہ البلخی نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن فضل علیہ الرحمۃ اسی پر فتوی دیتے تھے اور بعض علماء نے فرمایا کہ وہ شروع سے تشہد کی تکرار کرے گا اور بعض نے فرمایا کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے گا اور تفرید میں ہے: بعض نے فرمایا کہ وہ کلمہ شہادت کی تکرار کرے گا اور بعض نے فرمایا کہ وہ قرآنی دعائیں پڑھے گا،جیسے﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوْ اَخْطَاۡنَا﴾﴿رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوۡبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیۡتَنَا﴾ اور بعض نے فرمایا کہ وہ خاموش رہے گا اور بعض نے فرمایا کہ اسے اختیار ہے، چاہے وہ مذکورہ قرآنی دعائیں پڑھے اور اگر چاہے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔(الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، کیفیۃ الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 197، مطبوعہ کوئٹہ)

   تشہد کے بعد قرآنی دعائیں یا درود پڑھنے کے بارے میں المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:”وقال بعضهم: يسكت، وقال بعضهم: هو بالخيار إن شاء أتى بالدعوات المذكورة في القرآن، وإن شاء صلى على النبي عليه السلام“ترجمہ:اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ مسبوق تشہد کے بعد خاموش رہے اور بعض فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قرآن میں مذکوردعائیں پڑھے اور چاہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔  (المحیط البرھانی  ،الفصل السادس فی التغنی والالحان ،جلد1،صفحہ 374،مطبوعہ بیروت)

   مختلف اَقوال کی تصحیحات کو ذکر کرتے ہوئے حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :”وهل يأتي بها المسبوق مع الإمام قيل نعم وبالدعاء وصححه في المبسوط وقيل يكرر كلمة الشهادة واختاره ابن شجاع وقيل يسكت واختاره أبو بكر الرازي وقيل يسترسل في التشهد وصححه قاضيخان وينبغي الإفتاء به كما في البحر وهو الصحيح خلاصة“ترجمہ:اور کیا مسبوق امام کےساتھ درود پڑھے گا ؟کہا گیاہے کہ ہاں پڑھے گااور ساتھ دعا بھی پڑھے گا اور اسی کی تصحیح مبسوط میں ہے اور کہا گیا ہے کہ کلمہ شہادت کا تکرار کرے گا اور اس کو ابن شجاع نے اختیار فرمایا ہے اور کہا گیا ہے خاموش رہے گا اور اس قول کو ابوبکررازی نے اختیار فرمایا ہے اور کہا گیا ہے کہ تشہد کو آہستہ آہستہ پڑھے گا اور امام قاضی خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصحیح فرمائی ہے، مناسب یہ ہے کہ اسی پر فتوی ہو، جیسا کہ بحر میں ہے اور یہی صحیح ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح، کتاب الصلاہ، فصل فی بیان سننھا ،جلد1،صفحہ 271،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس بارے میں مزید نہرالفائق میں ہے:”وصلی علی النبی ولو مسبوقاً کما رجحہ فی المبسوط لکن رجح قاضی خان انہ یترسل فی التشھد ،قال فی البحر و ینبغی الافتاء بہ انتھی، ولعلہ لانہ یقضی آخر صلاتہ فی حق التشھد و ھذالیس آخرا “ترجمہ:اور نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود پڑھے، اگرچہ مسبوق ہو، جیسا کہ اسی کو مبسوط میں ترجیح دی ہے، لیکن قاضی خان علیہ الرحمۃ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ مسبوق تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے ،بحرمیں کہا ہے کہ اسی یعنی قاضی خان علیہ الرحمۃ کے قول پر فتوی دینا مناسب ہے(بحر کی  عبارت ختم ہوئی)۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس کا تقاضا تشہد کے حق میں نماز کے آخر میں ہوتا ہے اور یہ نماز کا آخر نہیں ہے۔(نھر الفائق،کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 222، مطبوعہ بیروت)

   مزید دیگر اقوال کی تصحیح کے بارے میں خلاصۃ الفتاوی میں ہے:”المسبوق اذاقعد مع الامام الصحیح انہ یترسل فی التشھد حتی یفرغ عن التشھد عند سلام الامام وقال شمس الائمہ سرخسی الاصح انہ یقرء التشھد والدعوات لانہ یلزم المتابعۃفیما لیس بمفسد“ترجمہ:مسبوق جب امام کے ساتھ قعدہ کرے گا، تو صحیح یہ ہے کہ تشہد ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، امام کے سلام پھیرنے کے وقت فارغ ہو اور شمس الائمہ امام سرخسی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: اصح یہ ہے کہ وہ تشہد کے ساتھ دعائیں بھی پڑھے گا، کیونکہ جس میں فسادِ نماز نہیں، اس میں امام کی متابعت لازمی ہے۔(خلاصۃ الفتاوی،جلد1،صفحہ165،مطبوعہ کوئٹہ)

   نقل کردہ تمام اقوال ہی تصحیح شدہ ہیں، چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”(قوله فيترسل) أي يتمهل، وهذا ما صححه في الخانية وشرح المنية في بحث المسبوق من باب السهو وباقي الأقوال مصحح أيضا قال في البحر وينبغي الإفتاء بما في الخانية كما لا يخفى، ولعل وجهه كما في النهر أنه يقضي آخر صلاته في حق التشهد ويأتي فيه بالصلاة والدعاء، وهذا ليس آخرا“ترجمہ: مصنف کا قول:(فیترسل) یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا اور یہ وہ قول ہے، جس کی تصحیح فتاوی قاضی خان میں ہے اور منیہ کی شرح میں سہو کے باب میں مسبوق کی بحث میں ہے۔ اور باقی اقوال بھی صحیح قرار دئیے گئے ہیں اور بحر میں فرمایا: فتوی اس پر ہے، جو خانیہ میں ہے، جیسا کہ پوشیدہ نہیں ہے۔ اور شاید اس کی وجہ یہ ہے، جیسا کہ نہر میں ہے کہ وہ (مسبوق) اپنی نماز کا آخری حصہ، جو تشہد کے حق میں ہے، ادا کرے گا اور اس میں درود و دعا پڑھے گا اور یہ آخری نہیں ہے۔(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 270، مطبوعہ کوئٹہ)

   ان تمام اقوال کی تصحیح کے بارے میں حاشیہ الطحطاوی علی الدر میں ہے:(فیترسل)و ھو الذی فی الفتاوی و ینبغی الافتاء بہ کما فی البحر لان القعدۃ التی قعدھا مع الامام وسط صلاتہ فیمنع عن الزیادۃ و التکریر حلبی وقیل یسکت فالاقوال اربعۃ وکلھا صحت“ترجمہ: تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے گا، یہی فتاوی میں ہے اور اسی پر فتوی دینا مناسب ہے، جیسا کہ بحر الرائق میں ہے، کیونکہ جو قعدہ یہ امام کے ساتھ کرے گا، اس کی نماز کا درمیان ہو گا اور درمیان نماز کے قعدہ میں زیادتی منع ہے اور امام حلبی علیہ الرحمۃ نے تکرار تشہد کا قول کیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تشہد کے بعد خاموش بیٹھے گا، تو اس میں چار اقوال ہیں اور تمام اقوال صحیح ہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر،کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 1،صفحہ 225،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی امجدیہ میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فقہائےکرام کےاقوال نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:”بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر مسبوق تشہد پڑھے اور باوجود اس کے امام کے فارغ ہونے سے پہلے اگر تشہد سے فارغ ہو گیا، تو کلمہ شہادت کی تکرار کرے کہ ترسل سے مقصد یہی تھا کہ یہ بیکار نہ رہے۔“(فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 181، مکتبۃ رضویہ، کراچی)

   مذکورہ فتوی میں اس قول پر عمل کو واجب نہیں، بلکہ بہتر قرار دیا گیا، جس کا مستفاد یہ ہے کہ دیگر اقوال پر عمل کر لیا، تو بھی جائز ہے۔

   شہزادہِ اعلی حضرت،مفتی اعظم ہند، مولانا مصطفی رضا خان رحمۃاللہ علیہ سے سوال ہوا:” کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ اگر امام سے قبل بعد تشہد درود شریف ودعا سے فارغ ہو گیا تو سلام پھیرنے تک زید کچھ پڑھے یا خاموش رہے، شرکت جماعت ابتدائی ہویا درمیانی ؟

   آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:”مقتدی اگر امام سے قبل تشہد اور درود ودعا سے فارغ ہو جائے، تو تشہد کے اول سے مکرر پڑھے یا اگر کوئی دوسری دعا محفوظ یا وہ جومشابہ الفاظ قرآن ہو، کرے یا کلمہ شہادت کی تکرار کرے یا سکوت کرے جو چاہے اور صحیح یہ ہے کہ عجلت سے نہ پڑھے، اس طرح پڑھے کہ امام کے ساتھ فارغ ہو، غنیہ میں ہے:”اذا فرغ من التشھد قبل سلام الامام یکررہ من اولہ وقیل یکررہ کلمۃ الشھادۃ وقیل یسکت وقیل یاتی بالصلوۃ والدعاء والصحیح انہ یترسل لیفرغ من التشھد عند سلام الامام “اور اگر قعدہ اولی میں امام سے پہلے تشہد سے فارغ ہو، تو تا فراغ امام خاموش ہی بیٹھے، یہاں اقوالِ مختلفہ نہیں۔۔۔اس اشتغال یا سکوت کو تاخیر سلام سے علاقہ نہیں، تاخیر تو جب ہوتی کہ جب تشہد ودرودودعا سے فارغ ہوتے ہی سلام واجب ہوتا ۔خروج عن الصلوہ بلفظ السلام واجب ہے، نہ یہ کہ تشہد ودرود ودعا پڑھتے ہی سلام معاً واجب ہے،جائز ہے کہ وہ ایک دعا کے بعد اور چند اَدْعِیَہ پڑھے۔“(فتاوی مصطفویہ ،کتاب الصلوۃ ،صفحہ 215،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم