Marhhom Baap ki Namaz Aur Rozon ka Fidya Uski Beti ko Dena Kaisa?

مرحوم باپ کی نمازوں، روزوں کا فدیہ اس کی بیٹی کو دے سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9196

تاریخ اجراء:27جمادی الاولی1446ھ/30 نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ چند دن پہلے زید  کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اپنے  مرحوم والد کی طرف سے اپنے مال میں سے  اُن کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہتا ہے، تو کیا وہ ان نمازوں اور روزوں  کا فدیہ اپنی بہن(جو کہ  متوفی کی بیٹی ہے، اُس) کو دے سکتا ہے؟ جبکہ وہ مستحقِ زکوۃ ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید اپنے  مرحوم والد کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ  اپنی بہن کو نہیں دے سکتا اور  اگر دے گا، تو ادا نہیں ہوگا، اگرچہ وہ مستحقِ زکوۃ ہو۔

   تفصیل اس مسئلے میں یہ ہےکہ فدیہ کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ، فطرہ وغیرہ صدقاتِ واجبہ کے ہیں ، تو جیسے دیگر صدقاتِ واجبہ  اپنے اصول(ماں باپ، دادا  دادی، نانا نانی اوپر  تک آباء واجداد) اور فروع(بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں نیچے تک اولاد) کو نہیں دے سکتے، اسی طرح فدیہ بھی نہیں دے سکتے، چونکہ فدیہ والد کی طرف  سے ادا کیا جا رہا ہے، لہٰذا  اُس  کے فروع (یعنی بیٹی جو کہ زید کی بہن ہے، اس) کو  فدیہ نہیں دے سکتے۔ اس فدیے سے جداگانہ  ممکنہ صورت میں زید اپنے صدقاتِ واجبہ و  نافلہ کے ذریعے اپنی مستحقِ زکوۃ بہن کی مدد کر ے کہ رشتہ داروں کو دینے میں دُگنا اجر ہے۔

   فدیہ کے مصارف وہی ہیں جو زکوۃ، فطرہ وغیرہ صدقاتِ واجبہ کے ہیں، جیسا کہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے: ”(مصرف الزکوۃ والعشر)هو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما فی القهستانی“ ترجمہ:جو زکوٰۃ و عشر کا مصرف ہے،وہی صدقہ فطر،کفارہ ، نذر اور دیگر صدقاتِ واجبہ کا بھی مصرف ہے ،جیسا کہ قہستانی میں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،جلد3،با ب المصرف،صفحہ333،مطبوعہ کوئٹہ)

   اپنےاصول و فروع کو صدقاتِ واجبہ دینے کے متعلق فتاوی ہندیہ میں ہے:”ولا يدفع الى اصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا فی الكافی“ترجمہ:اپنی اصل اگرچہ کتنی ہی اوپر ہو اور اپنی فرع اگرچہ کتنی ہی نیچی ہو، انہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتا،جیسا کہ کافی میں ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد1، صفحہ188،مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   رشتہ داروں پر خرچ کرنےکے متعلق ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:587ھ /1191ء) لکھتے ہیں:”اما صدقة التطوع فيجوز دفعها إلى هؤلاء والدفع اليهم أولى لان فيه أجرين أجر الصدقة وأجر الصلة“ترجمہ:بہرحال صدقہ نفل، تو وہ اپنے اصول و فروع کو دینا، جائز ہے، بلکہ بہتر ہے کہ اس میں دگنا اجر ہے، ایک صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔(بدا ئع الصنائع، جلد2، صفحہ50،مطبوعہ دار الكتب العلميہ، بیروت)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1367ھ/1947ء)لکھتے ہیں:”اپنی اصل یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہم جن کی اولاد میں یہ ہے اور اپنی اولاد بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہم کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔ یوہیں صدقہ فطر و نذر و کفّارہ بھی انہیں نہیں دے سکتا۔ رہا صدقہ نفل،  وہ دےسکتا ہے،  بلکہ بہتر ہے۔“(بھارِ شریعت، جلد1،حصہ05، صفحہ927،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ”زید متوفی پر متعدد روزے باقی ہے،  اگر ان کا فدیہ دینا چاہیں، تو  اس کے مستحق کون کون اشخاص ہیں؟ سیّد کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اقربامیں جو لوگ غریب ہیں ان کو دینے کا حکم ہے یا نہیں؟ تو جواباً ارشاد فرمایا:”مصرف اس کا مثل مصرفِ صدقہ فطر و کفارہ یمین وسائر کفارات و صدقات واجبہ ہے،بلکہ کسی ہاشمی، مثلاً شیخ علوی یا عباسی کو بھی نہیں دے سکتے۔ غنی یا غنی مرد کے نابالغ فقیر بچے کونہیں دے سکتے، کافر کونہیں دے سکتے، جو صاحبِ فدیہ کی اولاد میں ہے، جیسے بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، یا صاحبِ فدیہ جس کی اولاد میں، جیسے ماں باپ، دادا دادی، نانانانی، اُنہیں نہیں دے سکتے، اور اَقربا، مثلاً بہن بھائی، چچا، ماموں خالہ، پھوپھی، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، ان کو دے سکتے ہیں، جبکہ اور موانع نہ ہوں۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد10،صفحہ528،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم