مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9064
تاریخ اجراء: 21 صفر المظفر 1446ھ /27 اگست 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جس شخص کو شرعاً بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہو، اُس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کسی خاص طریقے کو اختیار کرنا ضروری نہیں، البتہ ”بہتر انداز“ کے اعتبار سے بیٹھنے کی تین صورتیں ہیں۔
(1)اگر تشہد والے انداز میں بیٹھنا چار زانو یا کسی دوسرے انداز میں بیٹھنے سے آسان محسوس ہو، تو پھر تشہد والی ہیئت پر بیٹھنا بہتر ہے۔
(2) اگر ہیئتِ تشہد کے علاوہ بیٹھنے میں اُتنی ہی آزمائش ہو، جتنی ہیئتِ تشہد میں ہوتی ہے، یعنی دونوں میں مساوی تکلیف ہو، تو اِس صورت میں بھی تشہد والی ہیئت اختیار کرنا بہتر ہے۔
(3)اگر تشہد والی ہیئت میں بیٹھنادوسرے طریقے پر بیٹھنے سے زیادہ تکلیف دَہ ہو، تو پھر جو طریقہ آسان لگے، وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔
اِن تینوں صورتوں کو صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ /1947ء) نے یوں لکھا:’’ بیٹھ کر پڑھنے میں کسی خاص طور پر بیٹھنا ضروری نہیں، بلکہ مریض پر جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے۔ ہاں دو زانو بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو،تو دو زانو بہتر ہے، ورنہ جو آسان ہو اختیار کرے۔“(بھار شریعت، جلد01، حصہ04، صفحہ720، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
عذر کے سبب چار زانو بیٹھنے کے متعلق”صحیح البخاری“ میں ہے:’’عن عبد اللہ بن عبد اللہ أنه كان يرى عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنهما يتربع في الصلاة إذا جلس، ففعلته وأنا يومئذ حديث السن، فنهاني عبد اللہ بن عمر، وقال: إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى، وتثنی اليسرى، فقلت: إنك تفعل ذلك؟ فقال: إن رجلي لا تحملاني‘‘ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عبداللہرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے۔ اُنہوں نے حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کو دیکھا کہ جب وہ نماز میں بیٹھے تو چار زانو بیٹھے۔ (راوی کہتےہیں )میں چونکہ نوعمر تھا، لہذا میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ مجھے عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے منع کر دیا اور فرمایا کہ نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا کرو اور بایاں پاؤں پھیلا دو۔ میں نے عرض کیا:پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھاتے۔(صحیح البخاری، جلد01، باب سنۃ الجلوس فی التشھد، صفحہ 165، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
یونہی نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا بتاتی ہیں:’’أن النبي صلى اللہ عليه وسلم صلى متربعا‘‘ ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے چار زانو بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔ (صحیح ابن حبان، جلد 06، صفحہ 329، مطبوعہ بیروت)
اِس عمل مبارک کی حکمت بیان کرتے ہوئے ”حَلْبَۃ المُجَلِّی “ میں ہے:’’انہ کان لعذر او تعلیماً للجواز‘‘ ترجمہ :نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ عمل مبارک کسی عذر کے سبب یا امت کو جواز کی تعلیم دینے کے لیے تھا۔ (حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد02، صفحہ 253،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
یاد رکھیے کہ مریض کے بیٹھنے کی کیفیت کے متعلق امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اپنے دو شاگردوں سے دو مختلف روایات مروی ہیں۔ روایتِ امام زفر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مطابق مریض کو حکم ہے کہ تشہد کی طرح بیٹھے، کیونکہ نماز میں ”جُلوس“ یعنی بیٹھنا معہود طریقے پر ہی ہونا چاہیے، جبکہ روایتِ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مطابق مریض کو جس طرح آسانی ہو، اُسی طرح بیٹھے، کیونکہ جب مرض نے اُس سے رکن (قیام) کو ساقط کر دیا، تو ہیئت بدرجہ اَولیٰ ساقط ہو جائے گی، یعنی جب اُس پر قیام ہی لازم نہیں، تو پھر بیٹھنے میں کیفیات کی پابندیاں کیونکر لازم رہیں گی!
اِس تفصیل کو شمس الدین علامہ ابنِ امیر الحاج حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:879ھ/1474ء) یوں لکھتے ہیں:’’ المریض یقعد فی الصلاۃ من اولھا الی آخرھا کما یقعد فی التشھد وعلیہ الفتویٰ كذا عن الفقيه أبي الليث، وهو قول زفر، ورواية عن أبي حنيفة؛ لأن هذه جلسة في الصلاة فتعتبر بجلسة الصحيح وروى محمد عن أبي حنيفة أنه يجلس كيف شاء من غير كراهة إن شاء محتبياً، وإن شاء متربعاً، وإن شاء على ركبتيه كما في التشهد وذكر في التحفة والمفيد أنه الصحيح؛ لأن عذر المريض يسقط عنه الأركان، فلأن يسقط عنه الهيئات أولى‘‘ ترجمہ:مریض نماز میں شروع سے آخر تک تشہد کے انداز پر بیٹھے۔اِسی پر فتوی ہے، یونہی فقیہ ابو اللیث ثمرقندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے منقول ہے۔ یہی امام زفر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول اور امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے مروی ایک روایت ہے، کیونکہ یہ نماز کا جلسہ ہے، لہذا جلسہ کے صحیح طریقے کا ہی اعتبار کیا جائے گا۔ امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ امام اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے روایت کرتے ہیں:مریض جیسے چاہے بیٹھ سکتا ہے، اِس میں کوئی کراہت نہیں۔ اگر چاہے تو گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھ جائے یا چار زانو بیٹھے اور اگر چاہے تو تشہد کے انداز پر ہی بیٹھ جائے۔”تحفۃ“ اور ”المفید“ میں ذکر کیا گیا کہ یہ قول صحیح ہے، کیونکہ جب مرض نے مریض سے ارکان کو ساقط کر دیا، تو بیٹھنے کی ہیئت بدرجہ اولیٰ ساقط ہو گی۔(حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد02، صفحہ 34،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
دونوں اقوال میں تطبیق وتوفیق دیتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال :1252ھ /1836ء) نے لکھا:’’أقول: ينبغي أن يقال إن كان جلوسه كما يجلس للتشهد أيسر عليه من غيره أو مساويا لغيره كان أولى وإلا اختار الأيسر في جميع الحالات، ولعل ذلك محمل القولين‘‘ ترجمہ:میں کہتا ہوں: یوں کہا جانا بہتر ہے کہ اگر مریض کو تشہد والے انداز میں بیٹھنا کسی دوسری ہیئت میں بیٹھنے سے آسان لگے یا دوسری ہیئت کے برابر آزمائش ہو، تو پھر ہیئتِ تشہد میں بیٹھنا ہی اَولیٰ ہے، ورنہ ساری نماز میں جو آسان ترین ہیئت محسوس ہو، اُسے ہی اختیار کر لے۔شاید یہ دونوں طرح کےاقوال کا بہترین محمل ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 04،باب صلاۃ المریض، صفحہ 533 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟