Mard Aur Aurat Ki Namaz Me Farq Ki Tafseel Dalail Aur Tarika

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی تفصیل ،دلائل اور طریقہ

مجیب:محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی  نمبر: WAT-1445

تاریخ  اجراء:09شعبان المعظم1444 ھ/02مارچ2023ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

          کیا مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے؟ دلائل کے ساتھ جواب دیجئے۔

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

            مرد اور عورت کی نماز میں ادائیگی کے طریقہ کے حوالے سے کئی چیزوں میں فرق  ہے مثلا عورت تکبیر میں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے گی اور مرد کانوں تک اٹھائے گا،عورت قیام میں ہاتھ سینے پر باندھے گی اور مرد ناف کے نیچے باندھے گا، عورت رکوع میں زیادہ نہیں جھکے گی اورنہ ہی گھٹنوں پر زور دے گی جبکہ مرد خوب جھکے گا اور گھٹنوں پر زور دے گا، عورت سجدے میں زمین سے چمٹ جائے گی جبکہ مرد کی پنڈلیاں زمین سے، رانیں پیٹ سے، اور کہنیاں زمین اور رانوں سے جدا رہیں گی، عورت قعدہ میں تورک کرے گی یعنی اپنے دونوں پاؤں کو اپنے دائیں طرف باہر نکالے گی جبکہ مرد بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھے گا اور دایاں پاؤں کھڑا رکھے گا۔

   احادیث مبارکہ میں بھی عورت اور مرد کی نماز کا فرق موجود ہے، چنانچہ صحابی رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "قال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔"ترجمہ:مجھ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو ہاتھ کانوں تک بلند کرو اور اور عورت اپنے ہاتھوں کو سینے تک اٹھائے۔(مجمع الزوائد ومنبع الزوائد، جلد 2، ص 272، دارالفکر، بیروت)

   حضرت ابو جحفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:" إن علیا رضی اللہ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔" ترجمہ:بے شک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نماز کے قیام میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ناف کے نیچے رکھنا سنت  سے ثابت ہے۔(سنن ابو داؤد جلد 1ص 118مکتبہ رحمانیہ، لاھور)

   ابو داؤد شریف میں ہی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:" أخذ الکف علی الأکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔"ترجمہ: نماز میں ناف کے نیچےایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھنا ہے۔(سنن ابو داؤد جلد 1ص 118مکتبہ رحمانیہ، لاھور)

   اور  امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’ کتاب المراسیل ‘‘میں یزیدبن حبیب سے نقل کیاہے، فرماتے ہیں: "أن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان، فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست فی ذٰلک کالرجل۔"ترجمہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاگزر دوعورتوں پر ہواجونمازپڑھ رہی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاجب تم سجدہ کروتو اپنے گوشت (جسم ) کاکچھ حصہ زمین سے ملایاکرو،کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں۔ (کتاب المراسیل ،باب ماجاء فی من نام عن الصلوٰۃ ،ص8،مطبوعہ افغانستان)

   اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:" حدثنا أبو بکر قال حدثنا أبو الأحوص عن أبی إسحاق عن الحارث عن علی قال إذا سجدت المرأۃ فلتحتفرو لتضم فخذیھا۔"ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:عورت جب سجدہ کرے تو چاہیے کہ زمین کے ساتھ چپک جائے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملا لے۔

ایک اور روایت میں ہے:" حدثنا أبو بکر قال نا أبو عبد الرحمٰن المقری عن سعید بن أیوب عن یزید ابن حبیب عن بکیر بن عبد اللہ بن الأشج عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاۃ المرأۃ فقال تجتمع و تحتفر۔ " ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: عورت اپنے جسم کو سمیٹے اور زمین کے ساتھ چمٹ کر رہے۔

   ایک اور روایت میں ہے:"حدثنا أبو بکر قال نا أبو الأحوص عن مغیرۃ عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتضم فخذیھا و لتضع بطنھا علیھما۔"ترجمہ:حضرت ابراہیم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملاکر رکھے۔

   ایک اور روایت میں ہے:"حدثنا أبو بکر قال نا جریر عن لیث عن مجاھد أنہ کان یکرہ أن یضع الرجل بطنہ علی فخذیہ إذا سجد کماتضع المرأۃ۔ "ترجمہ:حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد کے لیے یہ مکروہ جانتے تھے کہ وہ سجدے کی حالت میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملا کر رکھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1ص302 مکتبہ امدادیہ ملتان)

   اسی میں ایک اور مقام پر ہے:"حدثنا أبو بکر قال نا ابن مبارک عن ھشام عن الحسن قال المرأۃ تضطم فی السجود ۔ " ترجمہ:امام حسن علیہ الرحمۃ نےفرمایا:عورت سجدوں میں سمٹ جائے ۔

اسی میں ہے:"حدثنا أبو بکر قال نا وکیع عن سفیان عن منصور عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنھا بفخذھا و لا ترفع عجیزتھا و لا تجافی کما یجافی الرجل۔"   ترجمہ:حضرت ابراہیم علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جب عورت سجدہ کرے تواسے چاہیے کہ اپنے پیٹ کواپنی ران سےملادے اوراپنی سرین نہ اٹھائے اورمردوں کی طرح بازووں کوکروٹوں سے جدانہ کرے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1ص303 مکتبہ امدادیہ ملتان)

   نور الایضاح میں ہے:" رفع الیدین للتحریمۃ حذاء الأذنین للرجل ۔۔۔۔۔ و رفع الیدین حذاء المنکبین للحرۃ علی الصحیح لأنہ ذراعیھا عورۃ و مبناہ علی الستر۔"ترجمہ:تحریمہ کے لیے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھانا مرد کے لیے (سنت)ہے۔ اور کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا صحیح مذہب کے مطابق آزاد عورت کے لیے (سنت) ہے۔ اس لیے کہ اس کی کلائیاں بھی عورت ہیں اور اس کی بنا ستر پر ہے۔

   اسی میں ہے": و یسن وضع الرجل یدہ الیمنی علی الیسری تحت سرتہ لحدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔۔۔ و یسن وضع المرأۃ یدیھا علی صدرھا من غیر تحلیق لأنہ أستر لھا۔"ترجمہ:اور مرد کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ناف کے نیچے اپنے ہاتھ اس طرح باندھے کہ اس کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ہو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حدیث مبارکہ کی وجہ سے۔۔۔۔ اور عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بغیر انگلیوں کا حلقہ بنانے کے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے کیونکہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔

    اسی میں ہے: "و یسن مجافاۃ الرجل بطنہ عن فخذیہ ، و مرفقیہ عن جنبیہ، و ذراعیہ عن الأرض، و یسن انخفاض المرأۃ و لزقھا بطنھا بفخذیھا۔"ترجمہ:سجدہ کرتے وقت مردکے لئے سنت ہے کہ وہ اپنے پیٹ کورانوں سے ،اپنی کہنیوں کواپنے پہلوؤں سے،اوراپنی کلائیوں کو زمین سے جُدارکھے جبکہ عورتوں کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ زمین کی طرف سمٹ کرسجدہ کرے اوراپنے پیٹ کواپنی رانوں سے ملائے رکھے۔(ملخصا من نورالایضاح معہ حاشیۃ الطحطاوی،ص256تا 268قدیمی کتب خانہ کراچی)

   شیخ الاسلام ابوبکر بن علی بن  محمدالحدادی علیہ الرحمۃ ،اپنی کتاب میں  عورت کی قعدہ کی ہیئت کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :"ان کانت امرأۃ جلست علی الیتھا الیسری وأخرجت رجلیھا من الجانب الأیمن لأنہ أستر لھا۔"ترجمہ: اگر نمازی عورت ہے تو قعدہ میں الٹی سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں سیدھی طرف نکال دے کیونکہ اس  طریقے میں اس کا زیادہ پردہ ہے ۔(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1،ص 65، قدیمی کتب خانہ، کراچی )

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانامفتی محمد  امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:" رکوع میں پیٹھ خوب بچھی رکھے یہاں تک کہ اگر پانی کا پیالہ اس کی پیٹھ پر رکھ دیا جائے تو ٹھہر جائے۔عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں پیٹھ سیدھی نہ کرے اور گھٹنوں پر زور نہ دے بلکہ محض ہاتھ رکھ دے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے اور پاؤں جھکے ہوئے رکھے مردوں کی طرح خوب سیدھے نہ کر دے۔عورت سمٹ کر سجدہ کرے ، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے، اور پیٹ ران سے، اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے۔دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور دہنا قدم کھڑا رکھنا اور دہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے اور عورت دونوں پاؤں دہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین پر بیٹھے ۔" (ملخصا ازبہار شریعت، جلد 1،حصہ 3 ،ص 526تا530 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم