Maghrib Ki Namaz Mein 2 Rakat Reh Jayen To In Mein Attahiyat Parhen Ya Nahi?

مغرب کی جماعت کی دورکعت رہ جائیں تو ان میں التحیات پڑھیں یا نہیں؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2714

تاریخ اجراء:09ذوالقعدۃ الحرام1445 ھ/18مئی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کسی شخص کی مغرب کی نماز کی دو رکعتیں جماعت سے چھوٹ جائیں اور وہ تیسری رکعت میں امام کے ساتھ شامل ہو،تو ایسا شخص جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ دو رکعت پڑھنے کھڑاہوگا،تو   دونوں رکعتوں میں التحیات پڑھے گا،یا اپنی نماز کی صرف دوسری رکعت میں  التحیات پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جو مقتدی  ایک یا زیادہ رکعتیں  نکل جانے کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو، وہ مسبوق کہلاتا ہے۔مسبوق مقتدی امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب اپنی  بقیہ رکعتیں پڑھنے کھڑا ہو،تو اصول کے مطابق قراءت کے اعتبار سے یہ اس کی پہلی رکعت قرار دی جائے گی،جبکہ  تشہد کے اعتبار سے    بقیہ  رکعتیں امام کی ترتیب کےمطابق  گنتی میں آئیں گی،یعنی امام کےساتھ اگرایک رکعت پڑھی ہو، تو اپنی پڑھتےوقت پہلی رکعت ، دوسری شمار ہوگی اور دوسری رکعت، تیسری شمار ہوگی۔اس قاعدے و اصول  کی روشنی میں جب کوئی مسبوق مقتدی، امام کے ساتھ مغرب کی تیسری رکعت  میں شامل ہو،تو اما م کے سلام پھیرنے کے بعد   جب اپنی  بقیہ دو رکعتیں پڑھنے کھڑا ہوگا،تو  دونوں رکعتوں میں فاتحہ و سورت ملائے گا  اور دونوں میں ہی التحیات پڑھے  گا۔دونوں رکعتوں  میں فاتحہ و سورت کا ملانا   تو  اس لئے کہ  قراءت کے اعتبار سے یہ اس کی  پہلی اور دوسری رکعت ہے،اورپہلی اوردوسری دونوں رکعتوں میں فاتحہ اورسورت ملائی جاتی ہے ۔اوردونوں میں التحیات  اس لئے کہ  تشہد کے اعتبار سے یہ اس کی  دوسری اور تیسری   رکعت ہے۔اوردوسری اور تیسری دونوں رکعتوں میں التحیات پڑھی جاتی ہے ۔

   البتہ! اگر مسبوق سلام کے  بعد والی پہلی   رکعت میں قعدہ نہ کرے، بلکہ دوسری رکعت پڑھنے کے بعد قعدہ کرے، تو استحسانااس طرح بھی نماز ہوجائےگی اور سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا،کیونکہ قراءت کے اعتبارسے  یہ پہلی رکعت  بھی ہے اور پہلی رکعت میں قعدہ نہیں ہوتا۔لیکن چاہیے یہی کہ وہ  سلام کے بعدوالی پہلی رکعت میں قعدہ کرے۔

   مسبوق کے بقیہ رکعتیں  ادا کرنے کے اصول سے متعلق ،تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’(والمسبوق من سبقہ الامام أو ببعضھا وھو منفرد فیما یقضیہ)یقضی أول صلاتہ فی حق قراء ۃ واٰخرھا فی حق تشھد فمدرک رکعۃ من غیرفجریاتی برکعتین بفاتحۃ وسورۃ و تشھد بینھما ‘‘ترجمہ:اور مسبوق کہ جس سے امام  تمام رکعتوں یا بعض رکعتوں میں سبقت کرجائے تو وہ اپنی فوت شدہ میں منفرد ہے ۔قراءت کے حق میں وہ اپنی ابتدا ئے نماز  تصور کرکے ادا کرے گا،جبکہ تشہد کے حق میں آخرِنماز  سمجھ کر اداکرے گا،لہذا   فجر کے علاوہ  دوسری نمازوں میں ایک رکعت پانے والا دورکعتوں کو فاتحہ اور سورت کے ساتھ اداکرے گا  اور ان کے درمیان قعدہ بھی کرے گا۔ (تنویر الابصار مع در مختار،جلد2،مطلب:فی احکام المسبوق،صفحہ417-418،دار المعرفۃ،بیروت)

   بحر الرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:’’ومن أحكامه أنه يقضي أول صلاته في حق القراءة وآخرها في حق التشهد حتى لو أدرك مع الإمام ركعة من المغرب فإنه يقرأ في الركعتين بالفاتحة والسورة، ۔۔۔وعليه أن يقضي ركعة بتشهد؛ لأنها ثانيته‘‘ ترجمہ:مسبوق کے احکام میں سے ہے کہ وہ قراءت کے حق میں ابتدائے نماز ادا کرے گا اور تشہد کے حق میں آخرِنماز   اداکرے گا،یہاں تک کہ اگر  مسبوق نے امام کے ساتھ مغرب کی صرف ایک رکعت  پائی،تو وہ دونوں رکعتوں میں فاتحہ و سورت کی قراءت کرے گا،اور اس پر  اپنی پہلی رکعت  میں تشہد پڑھنا لازم ہوگا،کیونکہ وہ(تشہد کے اعتبار سے) اس کی دوسری رکعت ہے۔ (البحر الرائق، جلد1، استخلاف الصلاۃ فی المسبوق ،صفحہ402،دار الکتاب الاسلامی،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’مسبوق نے جب امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی شروع کی تو حق قراء ت میں یہ رکعت اوّل قرار دی جائے گی اور حق تشہد میں پہلی نہیں بلکہ دوسری تیسری چوتھی جو شمار میں آئے مثلاً تین  رکعت والی نماز میں ایک اسے ملی تو حق تشہد میں یہ جو اب پڑھتا ہے، دوسری ہے، لہٰذا ایک رکعت فاتحہ و سورت کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے۔پھر اس کے بعد والی میں بھی فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے ۔۔۔ اور تشہد وغیرہ پڑھ کر ختم کر دے‘‘ملخصاً۔ (بھار شریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ590،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   امام کے ساتھ  ایک رکعت پانے والا مسبوق ،اگر پہلی رکعت پر قعدہ نہ کرے ،تب بھی نماز ہو جائے گی،سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا،چنانچہ ردالمحتار میں ہے:’’ قال فی شرح المنیۃ:ولو لم یقعد  جاز استحسانا لا قیاسا و لم یلزمہ سجودالسھو لکون  الرکعۃ  اولی  من وجہ  ‘‘ترجمہ:شرح منیہ میں فرمایا  کہ اگر(مسبوق  امام کے سلام پھیرنے کے بعد والی)  دورکعتوں کے درمیان نہ بیٹھے،تو بھی استحساناً  جائز ہے، قیاساً (جائز) نہیں اور اس پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا ، کیونکہ ایک اعتبار سے یہ اس کی پہلی رکعت  ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار ، جلد2،کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ ، صفحہ 418،دار المعرفۃ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں:’’قولِ ارجح میں اُسے (مسبوق کو)یہی چاہیے کہ سلامِ امام کے بعد ایک ہی رکعت پڑھ کر قعدہ اولیٰ  کرے ،۔۔۔مگراس کا عکس بھی کیا کہ دو2پڑھ کر بیٹھا پہلی پر قعدہ نہ کیا۔۔۔ تو یوں بھی نماز جائز ہوگی ،سجدہ سہو لازم نہ آئے گا۔۔۔۔اقول:(میں کہتا ہوں) یہ فیصلہ بعینہا فتویٰ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ ، جلد6 ، صفحہ381،380،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم