Larka Aur Larki Par Namaz Kab Farz Hoti Hai?

 

لڑکے او ر لڑکی پر نماز کب فرض ہوتی ہے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-586

تاریخ اجراء: 08جمادی الاولٰی6144ھ/11نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ لڑکے او ر لڑکی   پر نماز کب فرض ہوتی ہے ،بالغ ہونے کے بعد یا لڑکے کے 12 سال اور لڑکی کے 9 سال کے ہوجانے کے بعد ؟اگر کوئی بچہ 13 سال کا ہو،مگر  ابھی بالغ  نہ ہوا ہو، تو اس پر نماز فرض ہو گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز ،روزے  کی فرضیت کا تعلق بلوغت سے ہے،لڑکے کے 12 سال اور لڑکی کے 9 سال کی عمر کے ہوجانے سے نہیں، اگرکوئی بچہ 13 سال کا ہوجائے،مگر وہ بالغ نہ ہوا ہو،تو اس پر نماز فرض نہیں ہوگی ۔ بالغ ہونے کی عمر  لڑکے میں بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے دوران ہے ،جبکہ لڑکی میں نو سال سے پندرہ سال کی عمر کے دوران ہے یعنی اس دوران لڑکا اور لڑکی میں  جب بھی بالغ ہونے کی علامات پائی جائیں گی،تو وہ بالغ ہوجائیں گے، ہاں اگر اس عمر کے دوران کوئی بالغ ہونے کی علامت نہ پائی جائے ،تو پھر شریعت نے لڑکا اور لڑکی دونوں کے لیے پندرہ (15)سال کی عمر مقرر فرمائی ہے،یعنی جب  لڑکا اور لڑکی دونوں ہی ہجری سن کے مطابق پورے 15 سال کے ہوجائیں گے، تو وہ    شرعاً  بالغ مانے جائیں گے۔واضح رہے کہ بچوں پر نماز  اگرچہ بالغ ہونے پر فرض ہوتی ہے،لیکن   بچوں کو بچپن ہی سے نماز کی عادت ڈالنی چاہيے اور شرعی حکم بھی یہ ہے کہ  جب وہ سات سال   کے ہوجائیں،تو والد/سرپرست پر بچے کو نماز پڑھنے کاحکم دینا اور  جب  دس سال کے ہوجائیں اور نہ پڑھیں تومار کر پڑھوانا واجب و ضروری ہے،ورنہ کوتاہی کرنے کے سبب والد/سرپرست گنہگار ہوں گے۔

   لڑکا اور لڑکی کے بالغ ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:’’(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل فإن لم يوجد فيهما) شيء(فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنة ولها تسع سنين)هو المختار‘‘ترجمہ:لڑکے کا بالغ ہونااحتلام،حاملہ کردینے اور انزال  سے ہےاور اصل انزال ہے،اور لڑکی کا احتلام ،حیض اور حاملہ ہونے سے ہے،اگر دونوں (یعنی لڑکا اور لڑکی ) میں کوئی علامت نہ پائی جائے، تو ہر ایک کے لیے پندرہ سال عمر کا کامل ہونا ضروری ہے اور اسی پر فتوٰی ہے،اور لڑکے کے لیے بالغ ہونے کی کم سے کم مدت بارہ سال ہے اور لڑکی کے لیے نو سال ہے،یہی مختار  ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار،جلد9،صفحہ260،259،دار المعرفہ،بیروت)

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں  فرماتے ہیں:”لڑکے کو جب انزال ہوگیا، وہ بالغ ہے، وہ کسی طرح ہو ،سوتے میں ہو جس کو احتلام کہتے ہیں یا بیداری کی حالت میں ہو۔ اور انزال نہ ہو، تو جب تک اس کی عمر پندرہ سال کی نہ ہو بالغ نہیں، جب پورے پندرہ سال کا ہوگیا، تو اب بالغ ہے، علامات بلوغ پائے جائیں یا نہ پائے جائیں ،لڑکے کے بلوغ کے لیے کم سے کم جو مدت ہے وہ بارہ سال کی ہے یعنی اگر اس مدت سے قبل وہ اپنے کو بالغ بتائے اس کا قول معتبر نہ ہوگا۔لڑکی کا بلوغ احتلام سے ہوتا ہے یا حمل سے یا حیض سے ان تینوں میں سے جو بات بھی پائی جائے ،تو وہ بالغ قرار پائے گی اور ان میں سے کوئی بات نہ پائی جائے تو جب تک پندرہ سال کی عمر نہ ہو جائے بالغ نہیں اور کم سے کم اس کا بلوغ نوسال میں ہوگا اس سے کم عمر ہے اور اپنے کو بالغہ کہتی ہو، تو معتبر نہیں۔“       (بھار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ 203، مکتبۃ المدینہ کراچی)

   سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’اقل مدت بلوغ پسر(کم سے کم  مدت لڑکے کے بالغ ہونے )کے لئے بارہ سال اور زیادہ سے زیادہ سب کے لیے پندرہ برس ہے ،اگر اس تین سال میں اثر بلوغ یعنی انزالِ منی خواب، خواہ بیداری میں واقع ہو فبھا ورنہ بعد تمامی پندرہ سال کے شرعاً بالغ ٹھہرجائے گا ،اگرچہ اثراصلاً ظاہرنہ ہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد7،صفحہ456،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   سات سال کے بچے کو نماز کا حکم دینے اور دس سال کی عمر   میں  مار کر پڑھوانے سے متعلق سنن ابی داؤد کی حدیث پاک ہے:”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:’’مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر“ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں ،تو انہیں(نماز نہ پڑھنے پر) مارو۔(سنن ابی داؤد، جلد1،صفحہ 133،رقم الحدیث:495المکتبۃ العصریہ،بیروت)

   اس حدیث کی شرح میں شرح المشکوٰۃ للامام الطیبی میں ہے:”يعني إذا بلغ أولادكم سبع سنين فأمروهم بأداء الصلاة؛ ليعتادوها ويستأنسوا بها. فإذا بلغوا عشراً  اضربوا علي تركها“ترجمہ: یعنی جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے ،تو اسے نماز کی ادائیگی کا حکم دو تاکہ اسے نماز کی عادت ہوجائے اور وہ نماز سے مانوس ہوجائیں ،پھر جب  وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں، تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں   مارو۔(شرح المشکوٰۃ للطیبی، جلد3،صفحہ 870،مطبوعہ مكة المكرمہ)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’بچّہ جیسے آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے،اور جب اُسے گیارہواں شروع ہو،تو ولی پر واجب ہے کہ صوم و صلوٰۃ پر مارے بشرطیکہ روزے کی طاقت ہو اور روزہ ضرر نہ کرے۔ ۔۔۔تنویرالابصارمیں ہے:’’وجب ضرب ابن عشر علیھا‘‘ ترکِ نماز پر دس سال کے بچّے کو سزادینا واجب ہے۔ردالمحتار میں ہے: ’’ظاھر الحدیث ان الامر لابن سبع واجب کالضرب والظاھر ایضاان الوجوب بالمعنی المصطلح علیہ لا بمعنی الافتراض لان الحدیث ظنی فافھم‘‘ حدیث کا ظاہر ہے کہ سات سال کے بچے کو نماز کا کہنا اسی طرح واجب ہے، جیسے دس سال کے بچے کو سزا دینا واجب ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ یہاں وجوب سے اصطلاحی وجوب مراد ہے، نہ کہ بمعنی فرض، کیونکہ حدیث ظنی ہے۔پس غور کیجئے۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد10،صفحہ346،345،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم