Kya Witr Dohrane Par 1 Rakat aur Milana Zaroori Hai?

کیا وتر کا اعادہ کرتے وقت مزید ایک رکعت ملانا ضروری ہے؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3319

تاریخ اجراء:24جمادی الاولیٰ1446ھ/27نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جو شخص احتیاطا ساری زندگی کی نمازیں دوبارہ پڑھنا چاہتا ہو اور اس کی ساری نمازیں صحیح تھیں تو اس حوالے سے جو یہ کہا گیا کہ جب وتر پرھے تو ایک رکعت اور ملالے کہ چار ہوجائیں اس کی کیا وجہ ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ان رکعات کے متعلق کنفرم نہیں کہ یہ نوافل ہیں یاوتر،کیونکہ یہ بھی احتمال ہے کہ ہوسکتاہے کہ اس کے ذمہ کوئی وترباقی ہو اوریہ بھی احتمال ہے کہ وترذمے پرنہ ہوں تویہ نوافل ہوں،اس لیے دونوں کی رعایت کرتے ہوئے ادائیگی کاحکم دیاگیاکہ اگریہ واقعۃ وترہوئے توتیسری رکعت پرقعدہ کرکے اس نے تین وترجس طرح اداکرنے چاہییں تھے، وہ اداکرلیے۔اوراگریہ واقعۃ نوافل تھے توچاررکعات اداکرلیں ،اورنوافل جفت ہی ہوتے ہیں۔اور تیسری پرقعدہ کرنے سے چاررکعات ہونے پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

   حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں اس مسئلہ کے تحت یہ وضاحت ہے:”ويقنت في الوتر ويقعد قدر التشهد في ثالثته ثم يصلي ركعة رابعة فإن كان وترا فقد أداه وإن لم يكن فقد صلى التطوع أربعا ولا يضره القعود“ترجمہ:اور وتر میں قنوت پڑھے  اور تیسری میں بقدر تشہد بیٹھے پھر چوتھی رکعت بھی ملائے تو اگر یہ واقعی وتر تھی تو وہ ادا ہوگئی اور اگر نہیں تھی تو چار رکعت نفل ہوگئی اور تیسری پر قعود سے نماز پر کوئی فرق نہ پڑے گا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح،ج01،ص447،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم