Kya Watan e Iqamat Mutlaq Safar Se Batil Ho Jata Hai ?

کیا وطنِ اقامت مطلق سفر سے باطل ہوجاتا ہے؟

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1351

تاریخ اجراء: 27جمادی الثانی1445 ھ/10جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شخص  علم دین حاصل کرنے کے لئے کسی شہر میں تین سے چار ماہ رہنے کے ارادہ سےمقیم ہوا، پھر  وہ شخص دوسرے شہر میں کسی کام سے تین دن کے لئے جائے اور وہ شہر اقامت والے شہر سے 50 کلومیٹر دور ہو، توکیا یہ شخص مقیم رہے گا یااس سفر کی وجہ سے مسافر کہلائے گا؟اور جو کتابوں میں مذکور ہے کہ وطنِ اقامت سفر سے باطل ہو جاتا ہے تو یہاں سفر سے مطلق سفر مراد ہے یا شرعی سفر؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی  گئی صورت میں وطن اقامت باطل نہ ہوگا اور  دوسرے شہر جاتے اور آتے ہوئے نیز اس شہر میں مکمل نماز پڑھنی ہوگی کیونکہ وطن اقامت مطلق سفر سے باطل نہیں ہوتا بلکہ مسافت شرعی پر جانے کی صورت میں باطل  ہوتا ہے اور مسافت شرعی 92کلو میٹر ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے :”مقیم ہے اور یہ جگہ محل اقامت ہے ۔۔۔یہاں سے کہیں جائے اور جاتے اور آتے اور ٹھہرتے اور واپس آکر ہمیشہ پوری پڑھے گا جبکہ وہ جگہ مدت سفر پر نہ ہو۔ “(فتاوی رضویہ ،جلد:8، صفحہ:267، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم