Kya Taraweeh Ki Jagah Qaza Umri Ada Karsakte Hain

کیا تراویح کی جگہ قضائے عمری ادا کرسکتے ہیں؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12285

تاریخ اجراء:        07 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/07جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرہندہ اپنی قضا نمازیں پڑھنا چاہتی ہو،  تو کیا رمضان میں تراویح کی جگہ وہ قضا نمازیں پڑھ سکتی ہے ؟؟ رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تراویح کی نماز ہر عاقل و بالغ مسلمان مرد و عورت پر سنتِ مؤکدہ ہے جس کا بلاوجہ شرعی ترک جائز نہیں۔ اور فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق قضائے عمری کی ادائیگی کے لیے  تراویح اور پنج وقتہ نمازکی سننِ مؤکدہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔

   تراویح کی نماز ہر مسلمان مرد و عورت پر سنتِ مؤکدہ ہے۔ جیسا کہ درِ مختارمیں ہے:”( التراویح سنۃ) مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین ( للرجال و النساء) اجماعاً“یعنی تراویح کی نماز مرد و عورت پر بالاجماع سنتِ مؤکدہ ہے کہ خلفائے راشدین نے  اس پر مواظبت فرمائی ہے۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج02،ص597-596،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”تراویح مرد و عورت سب کے ليے بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اس کا ترک جائز نہیں۔ (درمختار وغیرہ) اس پر خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مداومت فرمائی اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ ''میری سنت اور سنت خلفائے راشدین کو اپنے اوپر لازم سمجھو۔''  اور خود حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) نے بھی تراویح پڑھی اور اسے بہت پسند فرمایا۔(بہارِ  شریعت،ج01، ص688، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قضائے عمری کی ادائیگی کے لیے تراویح اور پنج وقتہ نمازکی سننِ مؤکدہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری، رد المحتار اور طحطاوی علی المراقی الفلاح وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”و النظم للآخر“ والاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من النوافل الا السنة المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی وردت فی الأخبار فتلك بنية النفل وغيرها بنية القضاء كذا فی المضمرات عن الظهيرية وفتاوى الحجة ومراده بالسنة المعروفة المؤكدةترجمہ: ”قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول  ہونا یہ نوافل  پڑھنے سے زیادہ اہم و اَولی ہے ، سوائے معروف سنتوں کے اور چاشت وتسبیح کی نماز کے اور اس نماز کے ، جس کے بارے میں اخبار وارد ہوئی ہیں ۔ یہ نمازیں نفل کی نیت سے پڑھے اور اس کے علاوہ قضا کی نیت سے پڑھے۔ ایسا ہی مضمرات میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے اور فتاوی الحجۃ میں ہے : معروف سنتوں سے مراد مؤکدہ سنتیں ہیں ۔“ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،باب قضاء الفوات، ج 02، ص 42-41، مکتبہ غوثیہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”قضاء نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا،انہیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھےکہ برئ الذمہ ہوجائے البتہ تراویح اوربارہ رکعتیں سنت مؤکدہ نہ چھوڑے۔(بہارِ شریعت،ج01، ص706، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم