Kya Taharri Kar Kar Padhi Gai Namaz Dobara Parhi Jaye Gi

تحری کرکے پڑھی گئی نماز کو کیا بعد میں دہرانا بھی ہوگا ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12278

تاریخ اجراء:        04 ذو الحجۃ الحرام 1443 ھ/04جولائی 2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص ایسی کسی جگہ ہو کہ جہاں قبلے کی سمت اسے معلوم نہ ہوسکے اور نہ ہی وہاں قابلِ اعتماد لوگ موجود ہوں کہ جن سے قبلہ کی سمت کا پتہ چل سکے۔ تو ایسی صورت حال میں جہاں اس کا دل جمے کہ اس طرف قبلہ ہوگا اس سمت وہ رخ کرکے نماز ادا کرلے تو کیا اس کی وہ نماز درست ادا ہوگی یا پھر گھر جاکر اسے وہ نماز لوٹانا ہوگی؟؟ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز میں استقبالِ قبلہ ایک بنیادی شرط ہے اور شرط کے بغیر نماز ہونا تو دور کی بات سرے سے نماز شروع ہی نہیں ہوتی، لہذا ممکنہ صورت میں درست سمتِ قبلہ کا تعین کرکے اسی رخ پر نماز ادا کرنا ضروری ہے تاکہ نماز ضائع ہونے سے محفوظ رہے مثلاً جسے کمپاس ، قبلہ نما اور دیگر ایسے ہی معتمد آلات کے ذریعے سے قبلہ معلوم کرنا آتا ہو تو وہ ان ذرائع  سے درست سمتِ قبلہ کا تعین کرکے، یونہی  مسجد اور محراب کے ذریعے یا پھر کسی مستند شخص سے معلوم کرکے حتی الامکان درست  سمتِ قبلہ کا تعین کرکے نماز کی ادائیگی کرے۔

   اس تمہیدی گفتگو کے بعد یہ شرعی مسئلہ ذہن نشین رہے کہ اگر کوئی شخص واقعتاً کسی ایسی جگہ موجود ہو کہ جہاں اسے کسی بھی طریقے سے  درست سمتِ قبلہ کا علم ہی نہ ہوسکے کہ وہاں نہ تو اسے کوئی بتانے والا شخص موجود ہو، اور  نہ ہی مسجد یا محراب سے یا کسی اور مستند ذریعے سے سمتِ قبلہ کا تعین ہوسکے، تو اب ایسے شخص کے لیے حکمِ شرع یہ ہے کہ وہ تحری کرے یعنی خوب سوچ و بچار کرے جس سمت قبلہ ہونے کا اُس کا دل جمے اُسی سمت رخ کرکے وہ نماز ادا کرلے کہ اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔

   البتہ  اس صورت میں تحری کرکے پڑھی گئی نماز درست ادا ہوگی، لہذا اگر  بعد میں  اسے اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ اس کی نماز قبلہ کی سمت ادا نہیں ہوئی جب بھی اس نماز کو دوبارہ لوٹانے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

   جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے تو وہ تحری کرکے نماز پڑھے،  بعد میں اس نماز کا اعادہ نہیں۔ جیسا کہ الاختیارلتعلیل المختار کے متن مختارمیں ہے:وان اشتبھت علیہ القبلۃ ولیس لہ من یسالہ اجتھدوصلی ولایعیدوان اخطأ۔“ یعنی اگر کسی پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اور اس کے پاس ایسا کوئی شخص موجودنہ ہوجس سےسمت قبلہ پوچھ سکے تو وہ  سوچ بچارکرنے کے بعدنمازپڑھے گااورتحری کرکے نماز پڑھنے کی صورت میں اگرچہ سمت قبلہ میں غلطی ہوتب بھی نمازکااعادہ نہیں ہوگا۔(الاختیارلتعلیل المختار،ج01،ص65،مطبوعہ پشاور)

   فتاوٰی عالمگیری میں ہے:وإن اشتبهت عليه القبلة وليس بحضرته من يسأله عنها اجتهد وصلى، كذا في الهداية۔ فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لا يعيدهایعنی  اگر کسی شخص  پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اور اس کے پاس ایسا کوئی شخص موجودنہ ہوجس سےسمت قبلہ پوچھ سکے تو وہ  سوچ بچارکرنے کے بعدنمازپڑھے گا، جیسا کہ ہدایہ میں مذکور ہے۔ پس اگر تحری کرکے نماز پڑھنے کی صورت میں نماز کے بعد اسے علم ہوجائے کہ اس نے غلط سمت پر نماز پڑھی ہے جب بھی اس نماز کا اعادہ نہیں ہوگا۔(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 64،مطبوعہ پشاور)

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:(ويتحرى) هو بذل المجهود لنيل المقصود (عاجز عن معرفة القبلة) بما مر (فإن ظهر خطؤه لم يعد) لما مریعنی پیچھے ذکر کیے گئے امور کے ذریعے سے قبلہ کی معرفت سے عاجز شخص سمتِ قبلہ کے لیے تحری کرے گا کہ مقصود کو حاصل کرنے کے لیے انتہائی کوشش یہی ہے، پس اگر بعد میں اس کا خطا پر ہونا ظاہر ہو بھی جائے  جب بھی وہ اس نماز کا اعادہ نہیں  کرے گا، اس وجہ سے کہ جو بات ماقبل گزرچکی ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت  ردالمحتار میں ہے :(قوله فإن ظهر خطؤه) أي بعدما صلى (قوله لما مر) وهو كون الطاعة بحسب الطاقة“ترجمہ:  ”یعنی اگر نماز پڑھنے کے اس شخص پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ اس کی نماز قبلہ کی سمت ادا نہ ہوئی تو اس صورت میں اس پڑھی گئی نماز کا اعادہ نہیں، کیونکہ  طاعت و فرمانبرداری حسبِ طاقت ہی بندے پر لازم ہوتی ہے ۔ “(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب الصلوۃ ، ج01، ص143، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” اگر کسی شخص کو کسی جگہ قبلہ کی شناخت نہ ہو، نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جو بتادے، نہ وہاں مسجديں محرابیں ہیں، نہ چاند، سورج، ستارے نکلے ہوں يا ہوں مگر اس کو اتنا علم نہیں کہ ان سے معلوم کرسکے، تو ایسے کے ليے حکم ہے کہ تحری کرے (سوچے جدھر قبلہ ہونا دل پر جمے ادھر ہی مونھ کرے)، اس کے حق میں وہی قبلہ ہے۔  تحری کر کے نماز پڑھی، بعد کو معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھی، ہوگئی، اعادہ کی حاجت نہیں۔ ۔۔۔ اگر مسجدیں اور محرابیں وہاں ہیں، مگر ان کا اعتبار نہ کیا، بلکہ اپنی رائے سے ایک طرف کو متوجہ ہو لیا، یا تارے وغیرہ موجود ہیں اور اس کو علم ہے کہ ان کے ذریعہ سے معلوم کرلے اور نہ کیا بلکہ سوچ کر پڑھ لی، دونوں صورت میں نہ ہوئی، اگر خلاف جہت کی طرف پڑھی۔“( بہار شریعت ، ج 01، ص 490-489، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم