Kya Sutra Aik Ungli Mota Hona Lazim Hai?

سُترہ ایک انگل موٹا ہونا لازم ہے ؟نیزپردے یا باریک شیشے کے ذریعے سُترہ ہو جائےگا؟

مجیب:محمد ساجد عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Jtl-865

تاریخ اجراء:06شعبان المعظم1444ھ/27 فروری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے لیے جو سترہ رکھتے ہیں، کیا اس کا ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا ضروری ہے یا صرف مستحب ہے ؟یعنی اگر کسی نمازی کے سامنے ایک انگلی سے بھی باریک چھڑی نصب کی گئی ہویا اوپر سے زمین تک لٹکتا ہوا کپڑے کا پردہ ہو یا ایک انگلی سے باریک شیشہ ہو جیسا کہ عام طور پر مساجد وغیرہ میں ہوتا ہے،تو کیاان صورتوں میں سترہ ہو جائے گا؟اورنمازی کے آگے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں ؟ بحرالرائق میں ہے: ’’اختلفوا فی مقدار غلظھا ففی الھدایۃ وینبغی أن تکون فی غلظ الاصبع لأن ما دونہ لا یبدو للناظر وکان مستندہ ما رواہ الحاکم مرفوعا استتروا فی صلاتکم ولو بسھم ویشکل علیہ ما رواہ الحاکم عن أبی ھریرۃ مرفوعا یجزیٔ من الستر قدر مؤخرۃ الرحل ولو بدقۃ شعرۃ ولھذا جعل بیان الغلظ فی البدائع قولا ضعیفا وأنہ لا اعتبار بالعرض وظاھرہ أنہ المذھب‘‘ ترجمہ:سترے کی موٹائی کی مقدار میں اختلاف ہے ،ہدایہ میں ہے کہ ایک انگلی کے برابر موٹا ہو، کیونکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں دیکھنے والے کو ظا ہر نہیں ہوگا اور اور ان کا استناد اس مرفوع حدیث سے ہے جسے امام حاکم نے روایت کیا کہ نماز میں سترہ رکھو ،اگرچہ تیر کے ساتھ۔ اس پر اس روایت سے اشکال ہوتا ہے ،جو امام حاکم نے حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعا روایت کی کہ سترے کے لیے کجاوے کی پچھلی لکڑی کافی ہے،اگرچہ وہ بال برابر باریک ہو ، اسی وجہ سے موٹائی کے بیان کو صاحب بدائع نے ضعیف قول قرار دیا اور کہا کہ چوڑائی کا اعتبار نہیں ہے ، اور بظاہر یہی مذہب ہے ۔(بحر، جلد2، صفحہ18)اس عبارت سے تو یہی لگتا ہے کہ موٹائی ہونا ضروری نہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تحقیق یہی ہے کہ سُترے کے طور پرر کھی ہوئی چیز کالمبائی میں کم از کم ایک ذراع(ڈیڑھ فٹ) اور موٹائی(یا چوڑائی) میں ایک انگلی کے برابر ہونا ضروری ہے۔یہی احادیث سے مستفاد ہے ، اسی کو مذہب حنفی کے کئی  معتبر متون میں اختیار کیا گیا اور مستند و معتمد شراح نے نہ صرف اس کو برقرار رکھا، بلکہ دلائل دے کر اس کی تائید کی ا ور اسے تقویت بخشی ۔ لہٰذا اس اعتبار سے اگر نماز ی کے سامنے انگلی سے بھی باریک چھڑی نصب کی گئی ہو، تو وہ سترہ کے لیے کفایت نہ کرے گی اور آگے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا، البتہ شیشہ یا کپڑے کا پردہ جو زمین تک لٹک رہا ہوتا ہے ،وہ سترہ کے لیے کافی ہے، کیونکہ ان کی موٹائی اگرچہ انگلی کے برابر نہیں ہوتی، لیکن چوڑائی انگلی سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے اور سترے کا اصل مقصود بھی ان سے حاصل ہو جاتا ہے، لہٰذا اس کے آگے سے گزرنے والا گنہگار نہیں ہوگا۔

   تفصیل کچھ یوں ہے کہ لمبائی میں سترے کی کم از کم مقداراحادیث کی روشنی میں امام محمدر حمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب ’’الاصل ‘‘میں بیان فرمادی کہ کم از کم ایک ذراع لمبا سترہ ہونا چاہیے، اور اس کی چوڑائی یا موٹائی کے حوالے سے کچھ کلام نہیں فرمایا۔ البتہ بعد میں ہمارے مشائخ جیسے شیخ الاسلام بکر خواہر زادہ ، شمس الائمہ سرخسی وغیرہم نے اس بارے میں کلام کیا اور ارشاد فرمایا کہ سترے کی موٹائی کم از کم ایک انگلی کے برابر ہونا ضروری ہے  ،کیونکہ حدیث پاک میں تیر کو سترے کے لیے کافی قرار دیا گیا ہے اور تیر کی موٹائی ایک انگلی کے برابر ہوتی ہے۔نیز سترے کا مقصود یہ ہے کہ سترے کو دیکھ کر کوئی شخص نمازی و سترہ کے درمیان سے نہ گزرے اور جو سترے کی دوسری طرف سے گزرنا چاہے وہ بلا جھجھک گزر جائے اور یہ مقصود اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے، جب یہ سترہ دیکھنے والے کو دور سے نظر آ سکے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سترے کی لمبائی کم ازکم ایک ذراع اورموٹائی ایک انگلی ہو،کیونکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں وہ دور سے نظر نہ آسکے گا اورسترے کا مقصود حاصل نہیں ہوگا۔

   سترے کی چوڑائی یا موٹائی کے حوالے سے اس کے برخلاف مشائخ کا کوئی اور قول فقہ حنفی میں مروی نہیں یہی وجہ ہے کہ بعدمیں آنے والے جلیل القدر فقہائے احناف نے  بھی سترے کے بارے میں اسی قول کو اختیار کیااور اسی پر اعتماد کر کے احکام بیان کیے ۔چند کتب کے جزئیات درج ذیل ہیں:

   ملتقی الابحر و مجمع الانہر ،تنویر الابصار و درمختار اور تبیین الحقائق میں ہے،واللفظ للملتقی و المجمع’’(وینبغی) للمصلی (أن یغرز أمامہ فی الصحراء سترۃ) لقولہ  علیہ الصلاۃ والسلام  لیستتر أحدکم ولو بسھم (طول ذراع وغلظ أصبع) لأن ما دونہ لا یبدو للناظر من بعید فلا یحصل المقصود‘‘ترجمہ:نمازی کو چاہیے کہ صحراء میں اپنے سامنے سترہ گاڑے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے اس فرمان کی وجہ سے کہ’’ تم میں سے ہر ایک سترہ قائم کرے ،اگرچہ تیر کے ساتھ۔‘‘ سترے کی مقدار لمبائی میں ایک ذراع اور موٹائی میں ایک انگلی ہو ،کیونکہ جو اس سے کم ہوگا وہ دور سے دیکھنے والے کو ظاہر نہیں ہوگا ،لہٰذا اس سے سترے کا مقصود حاصل نہیں ہوگا۔(مجمع الانھر، جلد1، صفحہ122، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   وقایہ اور نقایہ میں ہے ،واللفظ للنقایۃ:’’ویاثم بالمرور امام المصلی..... ان لم یکن للمصلی سترۃ بمقدار ذراع و غلظ اصبع“ ترجمہ:ایک ذراع لمبا اور ایک انگلی موٹا سترہ اگر نمازی کے آگے نہ ہو،تو اس کے آگے سے گزرنے والا شخص گنہگار ہوگا۔(نقایہ مع شرحہ فتح باب العنایہ، جلد1، صفحہ315-6، ایچ ایم سعید کمپنی، کراچی)

   شرح وقایہ للبرجندی و شرح نقایہ لملا علی قاری میں ہے،واللفظ للبرجندی:’’والمقصود بیان اقل مقدار الطول و اقل مقدار الغلظ‘‘ترجمہ: اور(یہاں )مقصود لمبائی اور موٹائی کی کم از کم مقدار بیان کرنا ہے ۔ (برجندی شرح مختصر الوقایۃ، جلد1، صفحہ133، مطبوعہ کوئٹہ)

   شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’قال (وأحب أن یکون بین یدی المصلی فی الصحراء شیء أدناہ طول ذراع) لما روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ قال: إذا صلی أحدکم فی الصحراء فلیتخذ بین یدیہ سترۃ وکانت العنزۃ تحمل مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وترکز فی الصحراء بین یدیہ فیصلی إلیھا، حتی قال عون بن جحیفۃ عن أبیہ رأیت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بالبطحاء فی قبۃ حمراء من أدم، فرکز بلال العنزۃ، وخرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی إلیھا، والناس یمرون من ورائھا، وإنما قال: بقدر ذراع طولا ولم یذکر العرض، وکان ینبغی أن تکون فی غلظ أصبع لقول ابن مسعود، یجزیٔ من السترۃ السھم، فإن المقصود أن یبدو للناظر فیمتنع من المرور بین یدیہ، وما دون ھذا لا یبدو للناظر من بعد‘‘ترجمہ: امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ مجھے پسند ہے کہ صحراء میں نماز پڑھنے والے کے سامنے کوئی ایسی چیز ہو جس کی لمبائی ایک ذراع ہو ۔ ‘‘ کیونکہ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’جب تم میں سے کوئی صحراء میں نماز پڑھے، تو اپنے سامنے سترہ رکھے ۔‘‘ اور سفر وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نیزہ رکھا جاتا تھا جس کو صحراء میں آپ کے سامنے گاڑا جاتا اور پھر اس طرف آپ نماز پڑھتے یہاں تک کہ عون بن جحیفہ اپنے والدکے حوالے سے بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بطحاء کے مقام پر سرخ رنگ کے چمڑے کے قبہ میں تھے ،تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیزہ گاڑا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر تشریف لا کر اس کی طرف نماز ادا کی جبکہ نیزے کی اگلی طرف سے لوگ گزر رہے تھے۔ امام محمد نے لمبائی کے اعتبار سے (سترے کی) مقدارایک ذراع بیان کی اور چوڑائی کچھ بیان نہیں کی  اور چوڑائی کے اعتبار سے سترہ انگلی برابر موٹا ہونا چاہیے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ :’’تیر سترے کے لیے  کفایت کرتا ہے ۔‘‘نیز سترے کا مقصود یہ ہے کہ دیکھنے والے کے لیے ظاہر ہو تاکہ وہ اس کے آگے سے گزرنے سے رُک جائے اور جوسترہ اس سے کم مقدار کا ہوگا وہ دیکھنے والے کے لیے دور سے ظاہر نہیں ہوتا۔(مبسوط، جلد1، صفحہ191، دار المعرفہ، بیروت)

   یہی امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سیر کبیر کی شرح میں لکھتے ہیں:’’والمقصود من السترۃ أن یعلم بہ من یکون بالبعد منہ فلا یمر بینہ وبین السترۃ، ولا یمتنع من المرور وراء ہ، ولا یحصل ذلک إلا إذا کان طویلا غلیظا. فقیل: ینبغی أن یکون طولہ ذراعا وغلظتہ بقدر الإصبع، لما قال: بلغنی أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: یجزی من السترۃ السھم‘‘ ترجمہ: سترے کا مقصود یہ ہے کہ دور والے شخص کو اس کا علم ہو جائے اور وہ نمازی و سترے کے درمیان سے نہ گزرے اور سترے کی دوسری طرف سے گزرنے سے نہ رُکے اور یہ مقصود اسی وقت حاصل ہوگا جب سترہ لمبا اور موٹا ہوگا اور اس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ سترہ ایک ذراع لمبا اور ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا چاہیے،جیسا کہ انہوں نے ( یعنی امام محمد نے) فرمایا مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’سترے کے لیے ایک تیر کافی ہے ۔‘‘ (شرح سیر کبیرلسرخسی، باب السلاح و الفرسیۃ،جلد1، صفحہ82، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   محیط برہانی میں ہے:’’ینبغی أن یکون مقدار طولھا ذراع، لأن العنزۃ قدر ذراع ولم یذکر فی الأصل قدرھا عرضاً، قیل وینبغی أن یکون فی غلظ إصبع ھکذا ذکر شمس الأئمۃ السرخسی رحمہ اللہ وأنہ موافق لما روی عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ أنہ قال یجزیٔ من السترۃ السھم، وھکذا ذکر محمد رحمہ اللہ فی السیر الکبیر :قال محمد رحمہ اللہ فی السیر:بلغنا أن رسول اللہ علیہ السلام قال: یجزیٔ من السترۃ السھم بفتح الیاء معناہ یکفی، قال اللہ تعالی﴿لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْـاً﴾قال:وطول السھم قدر ذراع وغلظہ قدر إصبع‘‘ترجمہ: سترے  کی مقدار لمبائی کے اعتبار سے ایک ذراع ہونی چاہیے،کیونکہ نیزے کی مقدار ذراع ہوتی ہے اور امام محمد نے الاصل میں چوڑائی کے اعتبار سے نیزے کی مقدار بیان نہیں کی ،( اس بارے میں) کہا گیا ہے کہ وہ ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا چاہیے، ایسا ہی شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر کیا ہے اور یہ اس کے بھی موافق ہے، جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’سترے میں تیر کفایت کرتا ہے۔ ‘‘ اور امام محمد علیہ الرحمۃ نے سیر کبیر میں بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے، چنانچہ آپ سیر میں فرماتے ہیں:’’ ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سترے میں تیر کفایت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں لفظ  یجزیٔ یاء کے فتح کے ساتھ ہے، جس کا مطلب ہے کہ کفایت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :’’  کوئی جان دوسری جان سے کچھ بھی کفایت نہ کرے گی‘‘اور آپ نے مزید فرمایا:کہ تیر کی لمبائی ایک ذراع اور موٹائی ایک انگلی کی مقدار ہوتی ہے۔(محیط برھانی ، جلد2، صفحہ216، المجلس العلمی وادارۃ القرآن، کراچی )

   تتارخانیہ میں ہے:’’ینبغی ان یکون مقدار طولھا ذراعا و لم یذکر فی الاصل قدرھا عرضا و ینبغی ان یکون فی غلظ الاصبع، ھکذا ذکرہ الشیخ شمس الائمہ السرخسی‘‘ترجمہ: سترے کی لمبائی ایک ذراع ہونی چاہیے اور امام محمد نے الاصل میں چوڑائی کی مقدار بیان نہیں کی، البتہ سترہ ایک انگل موٹاہونا چاہیے ،یہی شیخ شمس الائمہ امام سرخسی علیہ الرحمۃ نے ذکر کیا ہے ۔(فتاوی تتارخانیہ، جلد2، صفحہ286، مطبوعہ کوئٹہ)

   صاحب ہدایہ نے سترے کی موٹائی کے حوالے سے ایک انگلی والا قول بیان کر کے نہ صرف اسے برقرار رکھا، بلکہ دلیل بیان کر کے اس کے مرجَح ہونے کی طرف بھی اشارہ فرمایا۔اور ہدایہ کے شارحین میں سے صاحب عنایہ و بنایہ نے بھی اس کی تائید کی اور صاحب فتح القدیر نے بھی اس پر کوئی کلام نہ کیا اور اسے برقرار رکھا ۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے ’’ وقیل ینبغی أن تکون فی غلظ الأصبع لأن ما دونہ لا یبدو للناظر من بعید فلا یحصل المقصود‘‘ترجمہ: اور کہا گیا ہے کہ سترہ ایک انگلی کے برابر موٹا ہو، کیونکہ جو اس سے کم ہوگا وہ دورسے دیکھنے والے کو ظاہر نہیں ہوگا،لہٰذا اس سے مقصود حاصل نہیں ہوگا۔(ھدایہ ،جلد1، صفحہ63، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   عنایہ میں ہے:’’بیان غلظہ روی عن ابن مسعود أنہ قال: یجزیٔ من السترۃ السھم‘‘ترجمہ: یہ سترے کی موٹائی کا بیان ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا’’ سترے کے لیے ایک تیر کافی ہے ۔‘‘ (عنایہ، جلد1، صفحہ407، دار الفکر، بیروت)

   بنایہ میں ہے:’’ولم أر أحدا من الشراح بین ھذا القائل من ھو، والظاھر أنہ شیخ الإسلام فإنہ قال فی ’’مبسوطہ‘‘فی حدیث أبی جحیفۃ أنہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی بھم بالبطحاء وبین یدیہ عنزۃ، ومقدار العنزۃ طول ذراع غلظ أصبع لقول ابن مسعود رضی اللہ عنہ یجزیٔ من السترۃ السھم، وفی  الذخیرۃ  طول السھم قدر ذراع وعرضہ قدر أصبع‘‘ترجمہ: میں نے کسی شارح کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے بیان کیا ہو کہ سترے کی موٹائی والا قول کس کا ہے ۔ اورظاہر یہ ہے کہ یہ شیخ الاسلام کا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی مبسوط میں ابوجحیفہ والی یہ حدیث بیان کی کہ’’ حضور علیہ السلام نے بطحاء میں یوں نماز ادا کی کہ آپ کے سامنے نیزہ تھا۔‘‘ اس کے بعد فرمایا نیزے کی مقدار لمبائی میں ذراع اور ایک انگلی موٹا ہوناہے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ ’’ سترے کے لیے ایک تیر کافی ہے ۔‘‘اور ذخیرہ میں ہے کہ تیر کی لمبائی ایک ذراع اور چوڑائی ایک انگل ہوتی ہے ۔ (بنایہ، جلد2، صفحہ429، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن قبر کے سامنے نماز پڑھنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ قبر کے سامنے ممنوع ہے۔ یہ حکم عام ہے مسجد میں ہو خواہ مکان میں خواہ صحرا میں، اور اس کا علاج سترہ ہے کہ انگلی کا دَل (موٹائی)اور آدھ گزطول رکھتا ہو،الخ۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد22، صفحہ479، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی یہی قول اختیار فرمایا ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:’’سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا ہو۔‘‘(بھارِشریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ615، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   یہ چند عبارتیں ذکر کی ہیں اوراس کے علاوہ دیگر کئی کتب مثلا: فتاوی عالمگیری، غنیہ المستملی(حلبی کبیر)،وشرح و قایہ و عمدۃ الرعایہ،شرح نقایہ لملا علی، فتح المعین لابی السعود، نہر الفائق، نور الایضاح و مراقی الفلاح، عمدۃ القاری شرح بخاری، مرقاۃ شرح مشکوۃ ، اشعۃ اللمعات اور مراۃ المناجیح وغیرہ میں بھی ایک انگلی موٹاہونے والا قول ہی بیان کیا گیاہے۔ ان عبارات سے چند امور واضح ہوئے :

    (1)ایک تو یہ واضح ہوا کہ جس طرح سترہ ایک ذراع لمبا ہونا ضروری ہے ،اسی طرح ایک انگلی موٹا ہونا بھی ضروری ہے ،نہ کہ فقط مستحب ،کیونکہ فقہاء نے دونوں کی علت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس سے کم ہونے کی صورت میں مقصود حاصل نہیں ہوگااور وقایہ و نقایہ کی عبارات میں  تو یہ بھی صراحتاً فرمایا گیاکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں آگے سے گزرنے والاگنہگار ہوگا۔

    (2)انہی جزئیات میں غور کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سترے کی موٹائی بیان کرنے سے مراد اس کی چوڑائی بیان کرنا ہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ فقہاء پہلے یہ لکھتے ہیں کہ امام محمد نے چوڑائی بیان نہیں کی اور پھر آگے چوڑائی کے حوالے سے مشائخ کا قول بیان کر دیتے ہیں ، اور غلظ یا موٹائی سے تعبیر کرنا شاید اغلب کے اعتبار سے ہے کہ عمومی طور پر چھڑی وغیرہ نصب کی جاتی تھی اوراس کے لیے غلظ یا موٹائی کا ہی لفظ بولا جاتا ہے ،ورنہ اصل مقصود وہی ہے کہ ایک انگلی کے برابر موٹا یا  چوڑا ہوکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں دور سے دکھائی نہیں دے گا ۔علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صاحب ذخیرہ کی جوعبارت بنایہ میں نقل کی اس سے تو یہ بات انتہائی واضح ہو جاتی ہے، کیونکہ اس میں انہوں نے تیر کی موٹائی کو بھی عرض سے ہی تعبیر کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں ’’وعرضہ قدر أصبع‘‘اور تیر کی چوڑائی ایک انگلی کی مقدار ہوتی ہے ۔

   اسی بات کی مزید تائید کپڑے کے پردے سے بھی ہوتی ہے کہ کپڑا عموماً ایک انگلی جتنا موٹا نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود فقہاء کرام نے اس پردے کو سترہ تسلیم کیا ہے، جس سے معلوم ہوتاہے  کہ چوڑائی ایک انگلی کے برابر ہو جائے، تو وہ بھی کافی ہے،چنانچہ درمختار میں ہے:’’أثم المار ......فی ذلک المرور لو بلا حائل ولو ستارۃ ترتفع(أی تزول بحرکۃ رأسہ) إذا سجد وتعود إذا قام ‘‘ملتقطاً من الدر و مزیدا من ردالمحتار بین الھلالین ترجمہ: نمازی کے آگے سے گزرنے والا شخص اس گزرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگااگر درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہو ،اگرچہ ایسا پردہ ہی کیوں نہ ہو کہ جو نمازی کے سجدہ کرتے وقت اٹھ جاتایعنی نمازی کے سر کی حرکت سے ہٹ جاتا ہے اور نمازی کے کھڑے ہونے کے وقت لوٹ آتا ہے ۔

   علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پردے والی صورت کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اس کے تحت لکھتے ہیں:’’وھذہ الصورۃ ذکرھا سعدی جلبی ...... وصورتہ أن تکون الستارۃ من ثوب أو نحوہ معلقۃ فی سقف مثلا ثم یصلی قریبا منھا فإذا سجد تقع علی ظھرہ ویکون سجودہ خارجا عنھا وإذا قام أو قعد سبلت علی الأرض وسترتہ تأمل‘‘  ملتقطاًترجمہ:اس صورت کو علامہ سعدی چلپی نے ذکر کیا ہے اور اس کی کیفیت یہ ہے کہ کوئی کپڑے وغیرہ کا پردہ مثلا: چھت سے لٹک رہا ہو اور اس کے قریب کوئی یوں نماز پڑھے کہ سجدہ کرتے وقت وہ پردہ اس نمازی کی پیٹھ پر آجائے اور اس کا سجدہ پردے سے نکل کر آگے کو واقع ہو اور جب وہ کھڑا ہو یا بیٹھے تو اس وقت وہ پردہ زمین پر لٹک جائے اور نمازی کو چھپا لے ، تأمل۔ (درمختار مع ردالمحتار، قبیل مکروھات الصلوۃ، جلد2، صفحہ483، مطبوعہ کوئٹہ)

   یہ کپڑے کے پردے  کو سترہ قرار دینے کا صریح جزئیہ ہے اور انگلی سے کم موٹے لیکن چوڑے شیشے کا حکم بھی اسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بھی سترہ بن سکتا ہے ۔

    (3)انہی جزئیات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک انگلی کے برابر چوڑا یا موٹا ہونے والا قول ہی راجح و مختار ہے، کیونکہ

   اولاً: یہ ایسا مسئلہ  ہے  کہ  جس کے بارے میں ائمہ مذہب سے کچھ منقول نہیں اور مشائخ سے ایک ہی قول مروی ہے اور ایسی صورت میں اسی قول پر عمل کیا جاتا ہے، جیسا کہ شرح عقود میں علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’اذا لم یوجد فی الحادثۃ عن واحد منھم جواب ظاھر و تکلم فیہ المشائخ المتأخرون قولا واحدا یؤخذ بہ‘‘ ترجمہ:جب کسی معاملے میں کوئی واضح جواب موجود نہ ہو اور مشائخ متاخرین کے کلام میں اس کا ایک ہی قول ہو، تو اسے ہی لیا جائے گا۔(شرح عقود رسم المفتی، صفحہ57، مطبوعہ راولپنڈی)

   ثانیاً:اصحاب متون کا اسے ذکر کرنا بھی اس کے صحیح  و مختار ہونے کی دلیل ہے۔جیسا کہ شرح عقود میں ہی ہے:’’اصحاب المتون التزموا وضع القول الصحیح فیکون ما فی غیرھا مقابل الصحیح ما لم یصرح بتصحیحہ فیقدم علیھا‘‘ترجمہ: اصحابِ متون نے قولِ صحیح کو لکھنے کا التزام کیا ہے، لہٰذاجو اس کے علاوہ ہو گا وہ صحیح قول کا مقابل کہلائے گا، جب تک اس دوسرے قول کے صحیح ہونے کی تصریح نہ کردی جائے لہٰذا متون کو دوسرے اقوال پر مقدم کیا جائے گا۔ (شرح عقود رسم المفتی، صفحہ65، مطبوعہ  راولپنڈی)

   بلکہ علماء تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ متون و شروح کا مفہوم فتاوی کی صراحت سے مقدم ہوتا ہے،جیسا کہ غمزالعیون میں ہے :’’مافی المتون والشروح ولو کان بطریق المفھوم مقدم علی ما فی فتاوی وان لم یکن فی عبارتھااضطراب‘‘ ترجمہ: جو متون اور شروح میں ہو ،اگر چہ بطریق مفہوم ہی ہو وہ فتاوٰی میں مذکور پرمقدم ہے اگر چہ فتاوٰی کی عبارات میں اضطراب نہ بھی ہو ۔( غمز عیون البصائر ، کتاب الحجر والمأذون ، جلد3، صفحہ172، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   تو یہاں اس کے مقابل میں کسی قول پر فتوی ہی نہیں، اگرچہ صاحب بحر کی بحث ہے، تو اس کی بنا پر ہم متون و شروح و مشائخ مذہب  کی صریح بات کو رد نہیں کر سکتے ۔

   ثالثاً : جلیل القدر فقہائے کرام جیسے شمس الائمہ سرخسی ، شیخ الاسلام بکر خواہر زادہ، امام برہان الدین صاحب ہدایہ، صاحب محیط برہانی،امام فخر الدین زیلعی،امام صدر الشریعہ صاحب شرح وقایہ ، علامہ ابراہیم حلبی، علامہ اکمل الدین بابرتی، علامہ عینی وغیرہم نے اسی کو اختیار کیا اور یہی امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت و صاحب بہارشریعت علیہم الرحمۃ کا بھی مختار ہے ۔

   رہی بات اس عبارت کی جو سوال میں ذکر کی گئی، تو اس  عبارت میں محقق علامہ زین ابن نجیم  صاحب بحر رحمہ اللہ نے بحث کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : ’’ صاحب بدائع نے سترے کی موٹائی والی بات کو قول ضعیف کے طور پر ذکر کیا اور یہ قرار دیا کہ چوڑائی کا کوئی اعتبار نہیں ۔اور صاحب بدائع کی عبارت کا ظاہر  یہ کہتا ہے کہ یہی  مذہب حنفی ہے۔ نیز  ایک انگلی موٹائی والے قول پر ایک حدیث پاک سے بھی اشکال وارد کیا  کہ جس میں ایک بال کے برابر چیز کو بھی سترہ کے  لیے کافی قرار دیا گیا ہے ۔‘‘مفہوماً

   ان باتوں پر کلام کرنے سے پہلے صاحب بدائع کی عبارت ذکر کرنا مناسب ہے ،چنانچہ ملک العلماء علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’والمستحب لمن یصلی فی الصحراء أن ینصب بین یدیہ عودا أو یضع شیئا أدناہ طول ذراع کی لا یحتاج إلی الدرء..... وإنما قدر أدناہ بذراع طولا دون اعتبار العرض، وقیل: ینبغی أن یکون فی غلظ أصبع؛ لقول ابن مسعود یجزیٔ من السترۃ السھم، ولأن الغرض منہ المنع من المرور، وما دون ذلک لا یبدو للناظر من بعید فلا یمتنع‘‘ترجمہ:مستحب ہے کہ صحراء میں نماز پڑھنے والا اپنے سامنے کوئی لکڑی نصب کر لے یا کوئی اورچیز رکھ لے جو لمبائی میں کم از کم ایک ذراع ہو ،تاکہ گزرنے والے کو روکنے کی حاجت پیش نہ آئے ۔ لمبائی کے اعتبار سے کم از کم مقدار ایک ذراع بیان کر دی گئی ہے ، چوڑائی کے اعتبار سے بیان نہیں کی گئی ۔ ایک قول یہ ہے کہ سترہ ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا چاہیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فرمان کی وجہ سے کہ :’’تیر سترے کے لیے  کفایت کرتا ہے ۔‘‘نیز اس وجہ سے کہ سترے کا مقصود گزرنے والے کو گزرنے سے روکنا ہے اور اگر سترہ اس سے کم مقدار کا ہوگا ،تو وہ دیکھنے والے کے لیے دور سے ظاہر نہیں ہوگا، لہٰذا وہ رکے گا بھی نہیں۔ (بدائع، جلد1، صفحہ217، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اس عبارت میں صاحب بدائع نے جو سترے کی موٹائی والے قول کو ” قیل “ کے ساتھ بیان کیا ہے، تواس عبارت سے اس قول کے ضعیف یا غیر معتبر ہونے کا جزم حاصل نہیں ہوتا ،بلکہ  کئی قرائن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں قیل بیانِ ضعف کے لیے نہیں ،بلکہ فقط بیانِ قول کے لیے ہے،چنانچہ

   اس پر اول قرینہ تو یہی ہے کہ صاحب بدائع نے اس قول کو لکھنے کے بعد اس کی تعلیل بھی بیان کی ہے اور پھر اس کا کوئی رد نہیں کیا  اور تعلیل بیان کرکے اسے برقرار رکھنا اس کے مقبول ہونے کی دلیل ہوا کرتا ہے۔

   اور دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دیگر کئی فقہائے کرام نے بھی یہی انداز اپنایا ہے کہ اس بات کو قیل کے ساتھ بیان کیا، لیکن اس کے تحت شارحین میں سے کسی نے بھی اس قیل کو بیان ضعف کے لیے قرار نہیں دیا، بلکہ دلائل سے اس کو مزین ہی کیا ،جیسے صاحب ہدایہ ہیں کہ انہوں نے قیل کے ساتھ  ہی یہ بات بیان  کی اور آگے اس کی تعلیل بیان کی اورشارحین مثل صاحب عنایہ و بنایہ و فتح القدیر  میں سے کسی نے بھی  ا سے ضعف کی طرف اشارہ قرار نہیں دیا بلکہ عنایہ و بنایہ نے تو مزید دلائل دیے ،بلکہ  خود صاحب بحر نے بھی اسے صاحب ہدایہ کا موقف قرار دیا۔

   پھر تیسرا قرینہ   یہ ہے کہ اسی بات کو کئی معتبر اصحاب متون نے  اپنے متون میں ذکر کیا ،  یہ اس بات کے قوی و معتبر ہونے کی واضح دلیل ہے، کیونکہ متون میں ایک ضعیف قول کو نہیں لیا جاتا، جيسا کہ اوپر بیان ہوا۔

   ان دلائل و قرائن سے  ثابت ہوتا ہے کہ اس مقام پر قیل کا صیغہ بیان ضعف کے لیے نہیں ہےاور صاحب بدائع نے اگرچہ قیل  کے ساتھ اسے ذکر کیا ہے، لیکن تعلیل بیان کر کے اسے برقرار رکھا ہے، لہذا یہ بات دیگر مشائخ  کی طرح صاحب بدائع کے نزدیک بھی مقبول ہے۔

   اور بالفرض  یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صاحب بدائع کے نزدیک یہی راجح ہے کہ عرض کا اعتبار نہیں ، تب بھی سترے کی موٹائی کے معتبر ہونے والا   قول  ہی راجح ہوگا کہ  (1)متون   نے اس کو لیا ہے ،(2) کثرتِ فقہاء اس طرف ہے ، (3)ایک طرف صاحب بحر (اور ان کی اتباع میں علامہ شامی و طحطاوی تو)  ہیں، لیکن دوسری طرف ایک انگلی موٹائی کو اختیار کرنے  والے جلیل القدر ائمہ ترجیح و مشائخ ہیں۔اور ان ائمہ کی جلالتِ شان  سے بھی اس  قول کا پلہ بھاری بنتا ہے۔ (4) احوط بھی یہی ہے کہ  ایک انگلی موٹا سترہ ہو، تو آگے سے گزرنے والا یقینی طور پر گنہگار نہیں ہوگا ،جبکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں کثیر مشائخ و ائمہ کے قول پر وہ گنہگار ہوگا۔(5) نیز دلیل کے اعتبار سے بھی یہی اقوی ہے کہ جس طرح طول کے اعتبار سے  سترے کی مقدار مطلوب ہے تاکہ سترہ دکھائی دے ، اسی طرح ضروری ہے کہ  سترے کا عرض او رموٹائی  کم از کم ایک انگلی کے برابر موٹا ہو،تاکہ دیکھنے والے کو پتا لگ سکے،بلکہ اگر غور کریں سترے کی لمبائی سے جو مقصود ہے، وہ سترے کی چوڑائی یا موٹائی کے  بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا ،کیونکہ اگر بال برابر یا دھاگے کی مثل کوئی باریک چیز کھڑی کی جائے، تو اگرچہ وہ طول میں دو گز ہو تب بھی دکھائی نہیں دے گی، لہذا مقصود پورا کرنے کے لیے سترے کی کچھ نہ کچھ موٹائی ہونا ضروری ہے جو کہ ایک انگلی کے برابر متعین کی گئی ہے اور حدیث پاک سے اس کی تائید بھی موجود ہے،جیسا کہ اس کے بارے میں اقوال فقہاء فتوے میں گزر چکے ہیں ۔

   اور وہ حدیث جس کے ذریعے صاحب بحر نے اشکال قائم کیا، تو وہ حدیث صحیح نہیں، کیونکہ اس کو صرف محمد بن القاسم الاسدی مرفوعاً بیان کرتے ہیں،جبکہ یہ راوی سخت ضعیف ہے، جیسا کہ علامہ ابن رجب علیہ الرحمۃاس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’وزعم أنہ صحیح علی شرطهما، ولیس کذلک؛ فإن هذا تفرد برفعه محمد بن القاسم الأسدی،.... والأسدی، ضعیف جدا‘‘ترجمہ:امام حاکم نے گمان کیا کہ یہ روایت صحیحین کی شرط پر صحیح ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔اس کو مرفوع قرار دینے میں محمد بن قاسم اسدی متفردہے اور وہ انتہائی ضعیف ہے۔ (فتح الباری لابن رجب، جلد4، صفحہ37، مکتبۃ الغرباء الاثریہ، مدینہ منورہ)

   علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’ قال ابن خزیمۃ: أخاف أن یکون محمد بن القاسم وهم فی رفع هذا الخبر‘‘ترجمہ: امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں :مجھے خوف ہے کہ اس حدیث کو مرفوع قرار دینے میں محمد بن القاسم کو وہم ہوا ہے۔

   اس کے بعد علامہ ابن حجر امام حاکم کی یہ بات لکھنے کے بعد کہ یہ شیخین کی شرط پر ہے، لکھتے ہیں:’’قلت: بل محمد بن القاسم لم یخرجا لہ شیئاً، وهو ضعیف جداً، کذبہ أحمد وغیرہ‘‘ترجمہ: میں کہتاہوں : بلکہ محمد بن القاسم سے شیخین نے کوئی روایت بیان نہیں کی اور یہ انتہائی ضعیف راوی ہے ، امام احمد وغیرہ نے اس کی تکذیب کی ہے۔(اتحاف المھرۃ، جلد15، صفحہ721، مجمع الملک فھد لطباعۃ المصحف الشریف، مدینہ)

   اسی طرح امام ذہبی میزان الاعتدال میں اس راوی کے متعلق لکھتے ہیں : ”محمد بن القاسم   الأسدي الكوفي . . . . . .كذبه أحمد بن حنبل والدارقطني. . . . .وقال عبد اللہ بن أحمد. . . .قال أبي: محمد بن القاسم أحاديثه موضوعة، ليس بشئ. وقال البخاري: قال أحمد: رمينا حديثه. . . . . وقال النسائي: ليس بثقۃ ملتقطا ترجمہ: محمد بن القاسم الاسدی الکوفی، اس کو امام احمد بن حنبل اور امام دار قطنی نےجھوٹا قرار دیا ہے اور عبد اللہ بن احمد کہتے ہیں میرے والد نے فرمایا: محمد بن القاسم  کی احادیث موضوع ہیں ،ان کی کوئی حیثیت  نہیں  ہے۔امام بخاری نے فرمایا کہ امام احمد نے کہا: ہم نے اس کی حدیث کو پھینک دیا ہے۔ امام نسائی نے فرمایا : یہ ثقہ نہیں ہے۔( ميزان الاعتدال، جلد4، صفحہ 11، دار المعرفۃ، بیروت)

   خلاصہ کلام یہ ہے کہ صاحب بحر  علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جو بدائع کی عبارت پیش  کی اس  سے یہ استدلال ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ” سترے کے لیے ایک انگلی کے برابر عرض کادرکار   ہونا“ ائمہ سے منقول مذہب کی بات نہیں ہے، لیکن اس سے اس قول کا  محض ضعیف  وغیر معتبر ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ یہ مذہب  حنفی کے جلیل القدر مشائخ و ائمہ ترجیح  کا اختیار کردہ قول ہے، جس کو انہوں نے  نہ صرف متون و شروح میں لیا، بلکہ دلائل و تعلیلات کے ذریعے مؤیَّدو مدلَّل کیا اور مشائخ میں سے کسی نے اس کا رد نہیں کیا۔ لہذا اسے محض” قیل “ کے پیشِ نظر ضعیف قول قراردے  کر رد نہیں کیا جا سکتا۔خصوصا جبکہ اصول یہ   ہے کہ کوئی بات اگر مذہب میں منقول نہ ہو، لیکن   معتبر مشائخ میں سے کوئی ایک بیان کرے اور دیگر اس کی مخالفت نہ کریں، تو اس بات کو قبول کرنا واجب ہوتا ہے چنانچہ رد المحتار میں  علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں : ” وإذا صرح بعض الأئمة بقيد لم يرد عن غيره منهم تصريح بخلافه يجب أن يعتبر سيما والموضع موضع احتياط “ترجمہ: جب بعض ائمہ کسی ایسی قید کی تصریح کریں جس کے خلاف دیگر ائمہ نے تصریح نہ کی ہو توواجب ہے کہ اس قید کا اعتبار کیا جائےخاص طور پر جبکہ وہ مقام موضع احتیاط ہو۔ ( رد المحتار، جلد1، صفحہ 322، دار الفکر، بیروت)

   امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : ” وہر چند درعامہ متون واکثر شروح این مسئلہ رابارسال واطلاق آوردہ انداما  قیدے زائد کہ امام معتمد افادہ فرماید از قبولش ناگزیر ست مادامیکہ خلا فش در کلمات دیگر ائمہ مصرح وبران مرجح نباشد خصوصاً درصورتیکہ مقام مقامِ احتیاط ست‘‘ترجمہ: یہ مسئلہ اگرچہ عام متون اور اکثر شروح میں بغیر قید کے مطلقاً ذکر ہوا ہے،لیکن ایک ایسی زائد قید جو کوئی معتمد امام افادہ فرمائیں اسے قبول کرنا ضروری ہے جب تک کہ اس کے خلاف دیگر ائمہ کے کلمات میں تصریح اور اس پر ترجیح نہ ہو خاص طور سے جب احتیاط کا مقام ہو ،تو امام معتمد کی بتائی ہوئی ایسی قید کا قبول کرنا اور ضروری ہے۔ “(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ302، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   اور سترے میں  عرض کے معتبر ہونے والی بات مشائخ میں سے  کسی ایک  کی   طرف سے نہیں ،بلکہ بیسیوں فقہاء ، مشائخ و ائمہ ترجیح و تصحیح  کی اخذ کردہ  ہے ،لہذا صاحب بحر علیہ الرحمۃ  کی بحث کی بنیاد پر اسے ترک نہیں کیا جا سکتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم