Kya Masjid Ya Finae Masjid Me Bheek Mangne Wale Ki Madad Kar Sakte Hain?

کیا مسجد یا فنائے مسجد میں بھیک مانگنے والے کی مدد کر سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6865

تاریخ اجراء:06جمادی الاولی1443ھ11دسمبر 2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل بھیک مانگنے والے نماز کے فوراً بعد صف میں کھڑے ہو کر اپنی مجبوریاں بیان کر کے مانگنا شروع کر دیتے ہیں ،انہیں مسجد میں تو نہیں دے سکتے، لیکن اگر وہ واقعی مجبور ہوں ، تو کیا فنائے مسجد میں (جہاں جوتے اتارے جاتے ہیں ) یا مسجد کے باہر جا کر دے سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عینِ مسجد میں اپنی ذات کے لیے سوال کرنا مطلقاً ناجائز ہے اور ایسے سائل کو دینا بھی جائز نہیں ، یونہی عینِ مسجد کی طرح فنائے مسجد (جوتے اتارنے والی جگہ عموماً فنائے مسجد ہی ہوتی ہے، تو اس)میں بھی اپنی ذات کے لیے سوال کرنا اور انہیں دینا منع ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص واقعتاً مستحق ہو، پیشہ ور بھکاری نہ ہو، تو اسے مسجد سے باہر دے سکتے ہیں ۔

   تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ مساجد بھیک مانگنے کے لیے نہیں ، بلکہ اللہ عزوجل کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں اور اس معاملے کی قباحت بیان کرتے ہوئے علماء نے بطورِ زجر یہاں تک فرمایا کہ جو مسجد میں اپنی ذات کے لیے سوال کرنے والے کو ایک پیسہ دے، اسے چاہئے کہ اللہ کی راہ میں ستر (70) پیسے  اور دے کہ اس کا کفارہ ہوں ۔علماء اس کی ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مانگنے والےمسجد کے آداب کا خیال نہیں رکھیں گے، نمازیوں کے آگے سے گزریں گے، گردنیں پھلانگیں گے، ان کی آواز سے شور و غل ہو گا ، جس سے نمازیوں کو ایذا پہنچے گی اور یہ جائزنہیں ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہو، تب بھی خرابیوں کا دروازہ بند رکھنے کے لیے سوال کرنے اور انہیں دینے کی اجازت نہیں ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے مسجد میں اپنے لیے مانگنے سے مطلقاً منع فرمایا اور اسی کو احوط قرار دیا ہے۔ نیز عمومی طور پر فنائے مسجد میں بھی مانگنے پر یہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ مشاہدہ بھی ہے کہ سائل کی گریہ و زاری اور بلند آواز سے نمازیوں کی توجہ بٹتی اور ان کے لیے ایذا کا سبب بنتی ہے، لہذا عین مسجد کی طرح فنائے مسجد میں بھی سوال کرنا اور انہیں دینا بھی منع ہے۔ اگرچہ بہت خاص صورت میں جواز کی راہ ہے (مثلاً کوئی مستحق شخص اپنی جائز ضرورت کا اظہار کرے، لیکن اس کے لیے نمازیوں کے آگے سے نہ گزرے، گردنیں نہ پھلانگے اور اس کی وجہ سے نمازیوں اور ذکر کرنے والوں کو ایذا نہ پہنچے، تو اس کے مانگنے اور دینے کی وجہ سے گناہ نہیں ہو گا)، لیکن یہ صورت بہت نادر الوقوع ہے، اگر ان قیودات کے ساتھ ہی اجازت دی جائے ، تو لوگ کسی امر کی پرواہ نہ کریں گے اور جائز و ناجائز کا خیال نہیں رکھیں گے، لہذا مفاسد کا دروازہ بند رکھنے کے لیے فنائے مسجد میں بھی سوال کرنےسے منع کیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص واقعتاً مستحق ہو، پیشہ ور بھکاری نہ ہو، تو اسے مسجد سے باہر دے سکتے ہیں ۔

   مسجد میں غیر متعلقہ کام کرنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ  وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من سمع رجلا ینشد ضالۃ فی المسجد، فلیقل لا ردھا اللہ علیک فان المساجد لم تبن لھٰذا‘‘ترجمہ:جو کسی شخص کو مسجد میں اپنی گمشدہ چیز دریافت کرتے ہوئے سنے،تو وہ اُسے کہے کہ  اللہ تعالیٰ تیری گم شدہ چیز تجھے نہ لوٹائے کہ مساجد اس کام کےلیے نہیں بنائی گئیں ۔‘‘(الصحیح لمسلم،جلد1، صفحہ 210، مطبوعہ کراچی)

   اس حدیث پاک کے تحت مراۃ المناجیح میں ہے: ’’یعنی مسجدیں دنیاوی باتیں ، شور مچانے کے لیے نہیں بنیں ، یہ تو نماز اور اللہ کے ذکر کے لیے بنی ہیں ۔۔اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں بھیک مانگنا دیگر قسم کی دنیاوی باتیں کرنا منع ہے۔‘‘ (مراۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 438، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   مسجد میں بھیک مانگنا اور اسے دینا مطلقاً منع ہے اور یہی احوط ہے۔ در مختار میں ہے : ”ویحرم فیہ السوال ویکرہ الاعطاءمطلقا“ ترجمہ : ” مسجد میں ( اپنے لیے ) سوال کرنا حرام ہے اور اسے دینا بھی مکروہ ہے،مطلقاً۔ “ (در مختار مع ردالمحتار ، جلد 2، صفحہ 523، مطبوعہ  پشاور)

   غنیۃ المتملی میں ہے: ’’حرمۃ السؤال فی المسجد، لانہ کنشدان الضالۃ والبیع ونحوہ و کراھۃ الاعطاء، لانہ یحمل علی السؤال قیل لا اذا لم یتخط الناس ولم یمر بین یدی مصل والاول احوط‘‘ ترجمہ: مسجد میں سوال کرنے کی حرمت اس لیے ہے کہ یہ گمشدہ چیز تلاش کرنے اور بیع وغیرہ کرنے کی طرح ہے اور اسے دینا بھی مکروہ ہے، کیونکہ اسے دینا سوال کرنے پر ابھارنا ہے، کہا گیا ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے ،جب وہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگے اور نمازیوں کے سامنے سے گزرے، ورنہ نہیں ، لیکن پہلا قول ہی احوط ہے۔ (غنیۃ المتملی، فصل فی احکام المسجد، صفحہ 612، مطبوعہ  کوئٹہ)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”جو ( سائل ) مسجد میں غل مچادیتے ہیں ، نمازیوں کی نماز میں خلل ڈالتے ہیں ، لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے صفوں میں پھرتے ہیں ، (ان کا مانگنا)مطلقاً حرام ہے، اپنے لیے، خواہ دوسرے کے لیے،۔۔ اور اگر یہ باتیں نہ ہوں ، جب بھی اپنے لیے مسجد میں بھیک مانگنا منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”من سمع رجلا ینشد فی المسجد ضالة فلیقل لا ردھا ﷲالیک، فان المساجد لم تبن لھذا،“۔۔جب اتنی بات منع ہے، تو بھیک مانگنی، خصوصاً اکثر بلا ضرورت بطور پیشہ کے خود ہی حرام ہے، یہ کیونکر جائز ہوسکتی ہے۔ “ (ملخصاً از فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 401،402، رضا فاونڈیشن، لاھور)

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :” مسجد میں اپنے لیے مانگنا جائز نہیں اور اسے دینے سے بھی علماءنے منع فرمایاہے، یہاں تک کہ امام اسمعیل زاہد رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا: جو مسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے، اسے چاہئے کہ ستر پیسے اﷲتعالیٰ کے نام پر اور دے کہ اس پیسہ کا کفارہ ہوں ۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 418، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اختلاف کی تفصیل اور پھر مطلقاً ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مسجد میں سوال کرنے کے متعلق علمائے حنفیہ کے دو قول ہیں : ایک یہ کہ مطلقاً ناجائز۔ دوسرا یہ کہ چار شرطوں کے ساتھ جائز ہے اور یہ شرطیں نہ ہوں ، تو ناجائز۔ شرطِ اول یہ کہ مصلی کے آگے سے نہ گزرے۔ دوم یہ کہ لوگوں کی گردنیں نہ پھلانگے۔ سوم یہ کہ الحاف (اصرار کے ساتھ) سوال نہ ہو۔ چہارم یہ کہ ضرورت کے لئے سوال کرتا ہو،۔۔

   مزید فرماتے ہیں : ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے (ایک مقام پر دونوں اقوال ذکر کر کے  بحث فرمائی اور ) اس بحث کے آخر میں دونوں مقولوں میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ’’والظاھر ان الخلاف خلاف عصر و زمان لاختلاف السائلین‘‘ یعنی علماء میں یہ اختلاف زمانہ کے اختلاف پر مبنی ہے کہ قرون اولیٰ میں سائلین آدابِ مسجد کی مراعات کرتے تھے اور ضرورت پر سوال کرتے تھے اور اس طرح سوال نہ کرتے تھے کہ ممنوع ہو اور اس زمانہ کے سائلین ایسے نہیں ، اگر ان کو اجازت دیدی جائے، تو کسی امر کی پرواہ نہ کریں گے اور جائز و ناجائز کا خیال نہ رکھیں گے، اس لیے ان کے لیے حکم یہی ہے کہ سوال سے روک دئیے جائیں ’’وکم من شیئ یختلف باختلاف الزمان‘‘،

پس چونکہ صاحبِ غنیہ نے مطلق ممانعت کو احوط فرمایا اور ملا علی قاری نے اس اختلاف کو اختلافِ زمانہ پر محمول کیا، لہذا فقیر نے اسی قول کو اختیار کیا اور اسی کو بہار شریعت میں ذکر کیا۔‘‘ (فتاوی امجدیہ، حصہ 1، صفحہ 252 تا 255، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   فنائے مسجد میں دنیوی جائزقلیل بات کی مخصوص شرائط کی موجودگی میں اجازت ہے۔ جیسا کہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے فنائے مسجد یعنی فصیلِ مسجد کے متعلق فرمایا:’’فصیلِ مسجد بعض باتوں میں حکمِ مسجد میں ہے، معتکف بلا ضرورت اس پر جا سکتا ہے، اس پر تھوکنے یا ناک صاف کرنے یا نجاست ڈالنے کی اجازت نہیں ، بیہودہ باتیں ، قہقہے سے ہنسنا وہاں بھی نہ چاہئے اور بعض باتوں میں حکمِ مسجد نہیں ، اس پر اذان دیں گے، اس پر بیٹھ کر وضو کر سکتے ہیں ، جب تک مسجد میں جگہ باقی ہو، اس پر نمازِ فرض میں مسجد کا ثواب نہیں ، دنیا کی جائز قلیل بات جس میں چپقلش ہو نہ کسی نمازی یا ذاکر کی ایذا، اس میں حرج نہیں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 495، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لیکن اگر خاص  اسی صورت کی  اجازت دےدی جائے، تب بھی مفاسد کا دروازہ کھلے گا، لہذا سدِ باب کے لیے مانگنے سے مطلقاً منع کیا جائے گا۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں غیر معتکف کے لیے مسجد میں کھانے پینے اور سونے کے متعلق اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرمایا:’’تحقیقِ امر یہ ہے کہ مرخص و حاظر جب جمع ہوں ، حاظر کو ترجیح ہو گی اور احکام تبدلِ زمان سے متبدل ہو تے ہیں ، ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل،اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہاں ایک ضابطہ کلیہ عطا فرمایا ہے، جس سے ان سب جزئیات کا حکم صاف ہو جاتا ہے، فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم:  من سمع رجلا ینشد فی المسجد ضالة فلیقل لا ردھا ﷲالیک، فان المساجد لم تبن لھذا“،۔۔ اور ظاہر ہے کہ مسجدیں سونےکھانے پینے کو نہیں بنیں ، تو غیر معتکف کو ان میں ان افعال کی اجازت نہیں اور بلاشبہ اگر ان افعال کا دروازہ کھولا جائے تو زمانہ فاسد ہے اور قلوب ادب وہیبت سے عاری، مسجدیں چو پال ہوجائیں گی اور ان کی بے حرمتی ہوگی "وکل ماادی الی محظور محظور"ہر وہ شے جو ممنوع تک پہنچائے ممنوع ہوجاتی ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ، جلد8،صفحہ 93 ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   لہذا اگر کوئی واقعتاً مستحق ہو، پیشہ ور بھکاری نہ ہو، تو اسے مسجد سے باہر جا کر دےسکتے ہیں ۔ مفتی پاکستان مولانا مفتی محمد وقار الدین رضوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”مسجد میں بھیک مانگنا جائز نہیں ، کیونکہ مسجدیں اس لیے نہیں بنائی گئیں کہ ان میں بھیک مانگی جائے، مسجد میں بھیک دینا بھی ممنوع ہے، مسجد سے باہر دے سکتے ہیں ۔“ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 274، بزم وقار الدین، کراچی(

   پیشہ ور بھکاریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کو دینے کے متعلق امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’(جو گداگر)قوی و تندرست کسب پر قادر ہیں اور سوال کسی ایسی ضروریات کے لیے نہیں ، جو ان کے کسب سے باہر ہو، کوئی حرفت یا مزدوری نہیں کی جاتی، مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں ، انہیں سوال کرنا حرام ہے،۔۔ انہیں بھیک دینا منع ہے کہ معصیت پر اعانت ہے، لوگ اگر نہ دیں ، تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 254، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   یونہی بہار شریعت میں ہے:’’جس کے پاس آج کھانے کو ہے یا تندرست ہے کہ کما سکتا ہے، اسے کھانے کے لیے سوال حلال نہیں اور بے مانگے کوئی خود دیدے، تو لینا جائز اور کھانے کو اس کے پاس ہے، مگر کپڑا نہیں ، تو کپڑے کے لیے سوال کر سکتا ہے۔ یوہیں اگر جہاد یا طلبِ علمِ دین میں مشغول ہے، تو اگرچہ صحیح تندرست کمانے پر قادر ہو، اسے سوال کی اجازت ہے۔ جسے سوال جائز نہیں ، اس کے سوال پر دینا بھی ناجائز، دینے والا بھی گنہگار ہو گا۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 1، صحہ 934، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم