مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7540
تاریخ اجراء:11 ربیع
الاول1443ھ/18 اکتوبر2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے
بارے میں کہ ہماری مسجد کے بالکل ساتھ چند درخت لگے ہوئے
ہیں، اُن درختوں کی شاخیں اور ٹہنیاں مسجد کے
صحن پر بھی پھیلی ہوئی ہیں، سوال یہ ہے
کہ احاطہ مسجد میں موجود شاخوں پر چڑیوں نے اپنے گھونسلے
بنا رکھے ہیں، ان گھونسلوں میں چڑیوں کی
موجودگی کے سبب نیچے صحن مسجد پر بیٹ گرتی ہے، جس
سے مسجد آلودہ ہوتی ہے۔ کیا ہم اُن گھونسلوں کو وہاں سے ہٹا
سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
صحن مسجد کے احاطے میں پھیلی ہوئی
شاخوں سے گھونسلوں کو ہٹا کرکسی دوسری جگہ منتقل کر
دیا جائے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ ضرور
منتقل کیا جائے، کیونکہ چڑیوں کی بیٹ اگرچہ نجس
نہیں، مگر گندگی ضرور ہے اور مسجد کو گندگی سے بھی
بچانا واجب ہے۔
نبی اکرم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ان احدکم
اذا قام فی صلاتہ فانہ یناجی ربہ او ان ربہ
بینہ و بین القبلۃ فلا یبزقن احدکم قبل
قبلتہ ولکن عن یسارہ او تحت قدمیہ۔‘‘ترجمہ: جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا
ہو تو بیشک وہ رب سے مناجات کر رہا ہوتا ہے یا اُس کے رب
کی رحمت ، اُس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتی ہے، لہذا تم
میں سے ہر گز کوئی قبلہ کی طرف منہ کر کے مت تھوکے، ہاں
اپنی اُلٹی طرف یا پیروں کے نیچے تھوک لے۔(صحیح
البخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب حک البزاق بالید فی
المسجد، جلد1، صفحہ58، مطبوعہ کراچی)
بیان کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے شارح
بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’ذکر ما
یستنبط منہ فِيه تعظیم المساجد عن اثقال البدن وعن
القازورات بالطریق الاولی وفیہ احترام جھۃ القبلۃ
وفیہ إِزَالَة البزاق وَغَيره من الأقذار من الْمَسْجِد۔‘‘ترجمہ: اِس حديثِ مبارك سے حاصل شدہ مسائل میں سے
یہ ہے کہ مسجد کو بدنی رطوبتوں سے بچاتے ہوئے اُس کی عظمت
برقرار رکھنا، سمتِ قبلہ کا احترام بجا لانا اور مسجد سے تھوک اور دیگر
نجاستوں کوزائل کرنا۔(عمدۃ
القاری شرح صحیح بخاری،كتاب الصلوة،جلد4، صفحہ222،مطبوعہ
دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)
یونہی علامہ ابنِ نجیم مِصْری
حنفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات: 970ھ/1562ء) لکھتے
ہیں:’’ان غسل المعتکف راسہ فی المسجد لاباس بہ اذالم
یلوثہ بالماء المستعمل فان کان بحیث یتلوث المسجد یمنع
منہ لان تنظیف المسجد واجب“ترجمہ:اگر معتکِف مسجد
میں اپنے سر کو دھوئے اور استعمال شدہ پانی سے مسجد کو
آلودہ بھی نہ کرے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اگر سر
دھونے سے مسجد آلودہ ہوتی ہو تو اُسے سر دھونے سے منع کیا جائے گا، کیونکہ
مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔ (بحر الرائق، جلد2، باب
الاعتكاف، صفحہ530، مطبوعہ کوئٹہ)
چڑیوں کی بیٹ نجس نہیں، بلکہ پاک ہے،
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:’’ذرق
مایوکل لحمہ من الطیر طاھر عندنا مثل الحمام والعصافیر‘‘ترجمہ:پرندوں میں سے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے،اُن
کی بیٹ ہمارے نزدیک پاک ہے، جیسا کہ کبوتر اور
چڑیوں کی بیٹ۔(الفتاوى
الھندیۃ، جلد1، كتاب الطهارة ،الفصل الثاني في الاعيان النجسة،
صفحہ46،مطبوعہ کوئٹہ)
بالخصوص مسجدوں میں موجود گھونسلوں کے متعلق
علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:’’لا بأس
برمي عُشِّ خُفَّاش وحمام لتنقيته۔‘‘ترجمہ:مسجد
کی پاکیزگی کے لیے چمگادڑوں اور کبوتروں کے
گھونسلوں کو ہٹا دینے میں کوئی حرج نہیں۔(درمختار
مع ردالمحتار ، جلد2، صفحہ528، مطبوعہ کوئٹہ )
ایک سوال اور اُس کا جواب!
صحیح ابن حبَّان میں ہے:’’أقروا
الطير على مكانتها۔‘‘ترجمہ:پرندے کو اُس کے
گھونسلے میں ٹھہرا رہنے دو۔(یعنی اُس کے گھونسلے کو
کہیں اور منتقل مت کرو۔)
بظاہر یہ حدیث مبارک اوپر بیان کیے گئے
مسئلے کے برخلاف ہے، کیونکہ مسئلہ یہ بتایا گیا کہ
اُن گھونسلوں کو ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ اس سوال کا
جواب اور حدیثِ مبارک کا مَحْمَل بیان کرتے ہوئے
علامہ ابنِ عابدین شامی دمشقی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’أنه
قال صلى اللہ عليه وسلم «أقروا الطير على مكانتها» فإزالة العش مخالفة
للأمر فأجاب بأنه للتنقية وهي مطلوبة، فالحديث مخصوص بغير
المساجد۔‘‘ترجمہ:آقائے کونین صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:” پرندے کو اُس کے گھونسلے
میں ٹھہرا رہنے دو “ گھونسلے یا آشیانے کو
ہٹانابظاہر اس حدیث مبارک میں موجود حکم کی مخالفت ہے۔ اس
کا جواب یہ ہے کہ مسجدوں میں موجود آشیانوں کی
منتقلی دراصل مسجد کی پاکیزگی کے پیش نظر ہے اور یہ
بات سب جانتے ہیں کہ مسجد کی صفائی ستھرائی شریعت
کو مطلوب ہے، لہذا بیان کردہ حدیث مبارک مسجدوں کے علاوہ
دیگر مقامات پر موجود آشیانوں کے ساتھ خاص ہے۔(ردالمحتار
مع درمختار، جلد2،فروع”افضل المساجِد“، صفحہ528، مطبوعہ کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی
اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) سے مسجد میں موجود بگلے کے گھونسلوں کے متعلق سوال
ہوا، تو آپ نے جوابالکھا:بگلے کی بیٹ اگرچہ نجس نہیں، مگر
گندگی ضرور ہے اور مسجد کو گندگی سے بھی بچانا چاہیے،
بگلے جب گھونسلے لگانے لگیں، اُس وقت گھونسلوں کو نوچ کر پھینک
دیا جائے کہ بچے پیدا کرنے اور گندگی کی نوبت
نہ آنے پائے۔(فتاویٰ امجدیہ،
جلد1،صفحہ34،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟