Kya Maghrib Ke Baad Sunnatain Aur Nawafil Salatul Awabeen Me Shamil Hain

صلوٰۃ الاوابین کسے کہتےہیں؟کیامغرب کے بعد کی سنتیں اور نوافل صلوٰۃُالْاَوَّابِیْن میں شامل ہیں؟

مجیب: ابوالفیضان عرفان احمدمدنی

مصدق:       مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-7870

تاریخ اجراء:       10ذوالقعدۃ الحرام1443 ھ/10جون 2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مغرب کی نمازکے بعد2 سنتیں اور نفل پڑھنے سے صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن والا مستحب ادا ہوجائے گایادو سنتوں  کے بعد الگ سےچھ نفل پڑھنے ہو ں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مغرب کے فرضوں کے بعد کی دوسنت اور چار نفل کے مجموعہ کا نام  صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن ہے،لہذااگر کسی نے  مغرب کی نماز کے بعد دوسنتیں اورچارنفل پڑھے، تو اس کا صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن والا مستحب ادا ہوجائے گا، ہاں صرف دو سنتیں اور دو نفل سے اَوَّابِیْن ادا نہیں ہوگی۔

   صَلوٰۃُ الْاَوَّابِیْن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے:”من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيمابينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنةترجمہ: جوشخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے ،  تو یہ اُس کے حق میں بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔(سنن الترمذی،باب ما جاء في فضل التطوع وست ركعات بعد المغرب،ج1،ص209،مطبوعہ لاھور)

   حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف  ملاعلی قاریعلیہ رحمۃ اللہ الوالی اس حدیث  کے تحت فرماتے ہیں:” المفهوم أن الركعتين الراتبتين داخلتان في الستترجمہ:حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے بعد دو سنت مؤکدہ  بھی اوابین  کی چھ رکعتوں میں شامل ہیں۔(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصلوٰۃ،باب السنن وفضائلھا،ج3، ص226 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   حکیم الامت مفتی احمدیارخان علیہ الرحمۃاس حدیث کے تحت رقمطرازہیں:” اس نماز کا نام صلوٰۃ اوابین ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ چھ رکعتیں مغرب کی سنتوں و نفلوں کے ساتھ ہیں، بعض کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ۔مرقاۃ نے پہلی صورت کو ترجیح دی۔(مرأۃالمناجیح،ج2،ص226،نعیمی کتب خانہ، گجرات)

   نمازِاوابین کے بارے میں تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:”( ست بعد المغرب)لیکتب من الأوابین (بتسلیمۃ)او ثنتین او ثلاث، ………وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدي الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم“ترجمہ: مغرب کے بعد چھ رکعتیں  ادا  کرنا مستحب ہے تاکہ اوابین (اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں)میں سے لکھا جائے،خواہ ایک سلام سے یا دو سے یا تین سلام سے پڑھے۔کیا سنت مؤکدہ کو صلوۃ الاوابین سے شمار کیا جائے گا اور سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتا ہےیا نہیں؟علامہ کمال ابن ہمام نے اسی کواختیار کیا ہے (یعنی سنت مؤکدہ کو اوابین میں سے شمار کریں گے اور چھ رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے۔)(تنویر الابصار مع درمختار،ج2،ص547،مطبوعہ کوئٹہ)

   یونہی بحرالرائق میں ہے:”حكى في فتح القدير اختلافا بين أهل عصره في مسألتين الأولى هل السنة المؤكدة محسوبة من المستحب في الأربع بعد الظهر وبعد العشاء وفي الست بعد المغرب أو لا الثانية على تقدير الأول هل يؤدي الكل بتسليمة واحدة أو بتسليمتين واختار الأول فيهما “ترجمہ:فتح القدیر میں اس زمانے کے علماء کے درمیان دو مسئلوں میں اختلاف حکایت کیا گیا ہے، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ (ظہر و عشا اور مغرب کے بعد والی دو رکعت)سنت مؤکدہ کو(احادیث میں بیان کردہ فضیلت والی رکعات یعنی) ظہر کے بعد والی 4،عشاء کے بعد والی 4اور مغرب کے بعد والی 6مستحب رکعتوں میں شمار کیاجائے گایا نہیں؟دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنت مؤکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گا،تو کیا سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟صاحب فتح القدیر نے دونوں مسئلوں میں پہلی صورت (سنت مؤکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گااور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجاسکتا ہے ،  اس صورت)کو اختیار کیا ہے۔(البحرالرائق ،ج2،ص54،مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’(نماز مغرب کے)  فرض پڑھ کر چھ رکعتیں ایک ہی نیت سے،ہر دو رکعت پر  التحیات و دُرود و دُعا اور پہلی ،تیسری،پانچویں"سبحانک اللھم" سے شروع کرے،ان میں پہلی دو سنت مؤکدہ ہوں گی، باقی چار نفل،یہ صلوٰۃ ِاوابین ہے اور اللہ اوابین (اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں) کے لیے  غفور( بخشش فرمانے والا  ) ہے۔‘‘(الوظیفۃ الکریمہ،ص28،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’بعد مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں، ان کو صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں ،خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ظہر و مغرب و عشاء کے بعد جو مستحب ہے اس میں سنت مؤکدہ داخل ہے ،مثلاً:ظہر کے بعد چار پڑھیں، تو مؤکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہو سکتا ہے کہ مؤکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔‘‘(بھار شریعت ج1،ص666،667، مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم