Kya Baith Kar Nafil Namaz Parhne Se Aadha Sawab Milta Hai ?

 

کیا بیٹھ کر نوافل پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0398

تاریخ اجراء: 22محرم الحرام   1446ھ/29 جولائی     2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ اگر کوئی نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے، تو اس کی نماز اگرچہ ہوجاتی ہے ،لیکن اس کا ثواب آدھا ہوجاتا ہے ،کیا یہ بات درست ہے ؟اور یہ مسئلہ کہاں سے ثابت ہے ؟کیا عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اس کا ثواب بھی آدھا ہوجائے گا یا اس میں فرق ہے ؟کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نفل نہیں ادا فرماتے تھے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نفل نماز کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پڑھنا درست ہے ،لیکن جب کوئی عذر نہ ہو،تو نفل نماز کھڑے ہوکر پڑھنی چاہئے کہ کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھنا  افضل ہے، جبکہ بغیر کسی شرعی عذر و مجبوری کے بیٹھ کر نفل پڑھنے میں کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ثواب رہ جاتا ہے۔یہ مسئلہ متعدد احادیث مبارکہ   اور فقہائے کرام کی عبارات سے ثابت ہے ،اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں،نیز یہ حکم جس طرح مرد کے لیے ہے ،عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی بلاعذر نفل بیٹھ کر نہ پڑھے، ورنہ ثواب کم ہوجائے گا  ۔

   رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بیٹھ کر نفل نماز ادا فرمانا ! تو وہ بھی متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ، لیکن یہ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا ،اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثواب کم نہیں ہوتا تھا،جبکہ ہمارے لیے اس معاملے میں ترغیب یہ ہے کہ جب تک عذر نہ ہو اس وقت تک بیٹھ کر نفل نماز نہ پڑھیں تاکہ ثواب میں کمی نہ ہو۔

   بلا عذر بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا جائزہے، لیکن اس سے ثواب آدھا ہوجاتا ہے ،اس کے متعلق صحیح البخاری شریف میں ہے :”عن عمران بن حصین قال: سألت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا، فقال: إن صلى قائما فهو أفضل ومن صلى قاعدا، فله نصف أجر القائم “ترجمہ:حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے ،کہتے ہیں ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مرد کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا ،تو آپ علیہ الصلٰوۃ و  السلام نے ارشاد فرمایا :اگر اس نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو یہ افضل ہے اور جس  نے بیٹھ کر نماز پڑھی ، تو اس کے لیے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے  کے ثواب کے مقابلے میں  آدھا ثواب  ہے ۔(صحیح البخاری ،باب صلوٰۃ القاعد،ج02،ص 47،دار طوق النجاۃ)

   سنن ابن ماجہ کے الفاظ یوں ہے :”عن عمران بن حصين: أنه سأل النبي  صلى اللہ عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا فقال: صلاته قائما أفضل من صلاته قاعدا، وصلاته قاعدا على النصف من صلاته قائما“ترجمہ:حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے ،انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی شخص کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا، تو آپ علیہ الصلٰوۃ و  السلام نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کھڑے ہوکر نماز اداکرنا بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے افضل ہے اور اس کا بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے مقابلے میں نصف ہے ۔ (السنن لابن ماجۃ،باب فی صلوٰۃ القاعد،ج02،ص 207،دار الرسالۃ العالمیہ)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے :” ( ومن صلى )  أي: النافلة ( قاعدا )  أي: بغير عذر كما قاله سفيان الثوري وغيره( فله نصف أجر القائم )  قال ابن الملك: هذا الحديث محمول على المتنفل قاعدا مع القدرة على القيام : لأن المتنفل قاعدا مع العجز عن القيام يكون ثوابه كثوابه قائما. اهـ. ومحله أن نيته لولا العذر لفعل لما في الأحاديث الصحيحة: إن العذر يلحق صاحبه التارك لأجله بالفاعل في الثواب“ ترجمہ:اور جس نے نفل نماز بغیر عذر بیٹھ کر پڑھی ،جیساکہ امام سفیان ثوری اور دیگر ائمہ نے فرمایا ہے تو اس کے لیے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے ،علامہ ابن ملک نے فرمایا:یہ حدیث قیام پر قدرت ہونے کے باوجود بیٹھ کر نفل پڑھنے والے پر محمول ہے ،کیونکہ جو قیام سے عاجز ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر نفل نماز پڑھے، تو اس کا ثواب  ایسا ہی ہے جیساکہ کھڑے ہوکر پڑھنے کا ثواب ہوتا ہے  (امام ابن ملک کا کلام ختم ہوا )اور اس کا محل یہ ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ اگر عذر نہ ہوتا تو وہ ضرور کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ،کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ بات موجود ہے کہ جو عذر کی وجہ سے کوئی نیکی ترک کردے تو عذر صاحب عذر کو ثواب میں نیکی کرنے والے کے ساتھ ملادیتا ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ،باب القصد فی العمل،ج03،ص 936،دار الفکر)

   نور الایضاح میں ہے :”يجوز النفل قاعدا مع القدرة على القيام لكن له نصف أجر القائم إلا من عذر“ ترجمہ:قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر نفل ادا کرنا،جائز ہے، لیکن بیٹھ کر نوافل ادا کرنے والے کوکھڑے ہو کر نوافل ادا کرنے والے کی بنسبت آدھا ثواب ملے گا ،مگر کوئی عذر ہو (تو بیٹھ کر بھی نوافل ادا کرنے میں مکمل ثواب ملے گا)۔ (نور الایضاح،کتاب الصلاۃ،فصل فی الصلاۃ جالسا  ،ص 81، المكتبة العصريہ)

   بلاشبہ حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹھ کر نفل نماز ادا کرنا ثابت ہے ،جیساکہ مسند احمد کی ایک حدیث پاک میں ہے ، حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں:’’ان  النبی صلى اللہ عليه وسلم كان يركع ركعتين بعد الوتر وهو جالس‘‘ترجمہ:بے شک حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ (مسند احمد،ج44،ص177،حدیث26553،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ)

   لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا کہ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ثواب کم نہیں ہوتا تھا،چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث پاک ہے ،حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں:’’حدثت ان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة،قال: فاتيته،فوجدته يصلي جالسا،فوضعت يدی على راسه،فقال: ما لك؟ يا عبد اللہ بن عمرو! ‍ قلت:حدثت يا رسول اللہ!انك قلت:"صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة"وانت تصلی قاعدا،قال:اجل ولكنی لست كاحد منكم ‘‘ترجمہ:مجھے یہ خبر پہنچی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے (یعنی اسے آدھا ثواب ملے گا )فرماتے ہیں :اس کے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا ،تو میں نے اپنا ہاتھ  آپ کے سر  انور پر رکھ لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے عبد اللہ بن عمر و!کیا ہوا؟میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا:بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے ،حالانکہ آپ خود بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے ہیں ۔فرمایا:ہاں ، لیکن میں تم جیسا نہیں ہوں ۔ (صحیح المسلم ، ج1،ص253، حدیث 735،مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)

   مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”( ولكنى لست كأحد منكم )  يعني هذا من خصوصياتي أن لا ينقص ثواب صلواتي على أي وجه تكون من جلواتي، وذلك فضل اللہ يؤتيه من يشاء، قال تعالى: ﴿وَکَانَ فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا﴾“ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان”لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں “مراد یہ ہے کہ یہ میری خصوصیات میں سے ہے  کہ میری نمازوں کا ثواب چاہے میرے طریقوں میں سے کوئی بھی صورت ہو ،کم نہیں ہوتا اور یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’اور  اللہ کاتم پربڑا فضل ہے ۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح ،باب القصد فی العمل،ج03،ص 939،دار الفکر)

   بلا عذر بیٹھ کر نفل پڑھنے کی صورت میں ثواب آدھا رہ جاتا ہے ،اس حکم میں عورت کے شامل ہونے کے متعلق  مرآۃ المناجیح میں ہے:”اس ساری حدیث میں نماز سے مراد نماز نفل ہے، مرد کا ذکر اتفاقًا ہے ،ورنہ عورت کا بھی حکم یہی ہے۔یعنی  ثواب کی کانٹ چھانٹ تمہارے لیے ہے ہم کوبیٹھ کرنفل پڑھنے میں وہ ثواب ملتا ہے ،جو تمہیں کھڑے ہو کر پڑھنے میں نہیں ملتا یایہ معنی ہیں کہ ہمیں جتنا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے میں ملتا ہے ،اتنا ہی بیٹھ کر۔“(مرآۃ المناجیح ،ج02،ص268 ،نعیمی کتب خانہ )

    بہار شریعت میں ہے:” کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت ہو جب بھی بیٹھ کر نفل پڑھ سکتے ہیں،مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے کہ حدیث میں فرمایا: ’’بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نصف ہے۔‘‘اور عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے ،تو ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ یہ جو آج کل عام رواج پڑ گیا ہے کہ نفل بیٹھ کر پڑھا کرتے ہیں، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید بیٹھ کر پڑھنے کو افضل سمجھتے ہیں، ایسا ہے تو ان کا خیال غلط ہے۔ وتر کے بعد جو دو رکعت نفل پڑھتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور اس میں اُس حدیث سے دلیل لانا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم نے وتر کے بعد بیٹھ کر نفل پڑھے۔ صحیح نہیں کہ یہ حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم) کے مخصوصات میں سے ہے۔امام ابراہیم حلبی و صاحب درمختار و صاحب ردالمحتار نے فرمایا: کہ یہ حکم حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم) کے خصائص سے ہے۔“(بھار شریعت،ج 1،حصہ 4،ص 671،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم